*تدفین کے بعد قبر پر پڑھی جانے والی آیات جہراً یا سِرّاً؟*
سوال :
مفتی صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔
عرض تحریر یہ ہے کہ میت کی تدفین کے فوراً بعد الم سے مفلحون تک اور اٰمن الرسول تا ختم تک جو تلاوت کی جاتی ہے، تلاوت سرّی ثابت ہے یا جہری وضاحت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : انصاری سفیان ملی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تدفین کے بعد قبر کے سرہانے سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات الم سے مفلحون تک اور قدموں کی طرف آخری آیات اٰمن الرسول سے ختم سورۃ تک پڑھنا بعض احادیث وآثار صحابہ سے ثابت ہے، لیکن احادیث میں یا کتب فقہ میں جہر یا سِر کی صراحت نہیں ہے، لہٰذا دونوں طرح پڑھنے کی گنجائش ہے، جہراً پڑھنے کو مکروہ کہنا یا سراً پڑھنے کو نئی چیز بتاکر نکیر کرنا درست نہیں۔
عطاء بن أبي رباح، يقول: سمعت ابن عمر، يقول : سمعت النبي صلى اللہ عليه وسلم يقول :إذا مات أحدكم فلا تحبسوه، وأسرعوا به إلى قبره، وليقرأ عند رأسه بفاتحة الكتاب، وعند رجليه بخاتمة البقرة في قبره۔(المعجم الكبير : ۱۲؍۴۴۴، رقم الحدیث:۱۳۶۱۳)
وکان ابن عمر یستحب أن یقرأ علی البقر بعد الدفن أول سورۃ البقر وخاتمتہا۔ (شامی / باب صلاۃ الجنائز، ۳؍۱۴۳)
الإصرار علی المندوب یبلغہ إلی حد الکراہۃ۔ (سعایۃ : ۲؍۲۶۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 جمادی الاول 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں