بدھ، 30 جنوری، 2019

دورانِ تلاوت اذان کے جواب کا حکم

*دورانِ تلاوت اذان کے جواب کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ دورانِ تلاوت اگر اذان شروع ہوجائے تو اذان کا جواب دیا جائے گا یا نہیں؟
یہ بھی واضح فرمائیں کہ اگر تلاوت مسجد میں کی جا رہی ہو تو کیا حکم ہے؟ اور اگر گھر پر دورانِ تلاوت اذان کی آواز آتی ہو تو تلاوت جاری رکھیں یا روک کر اذان کا جواب دیا جائے؟
(المستفتی : ڈاکٹر زبیر، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دورانِ تلاوت اذان ہونے لگے تو افضل اور مناسب یہ ہے کہ تلاوت روک کر اذان کا جواب دیا جائے، اس لئے کہ تلاوت تو بعد میں ہوسکتی ہے، لیکن اذان تو ایک بار ہی ہوگی۔

تلاوت اگر مسجد میں کی جائے یا گھر میں افضل یہی ہے کہ تلاوت موقوف کرکے اذان کا جواب دیا جائے۔ تاہم اگر کوئی تلاوت کرتا رہے تب بھی اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

لو کان في القراء ۃ ینبغي أن یقطع و یشتغل بالاستماع والإجابۃ۔ (بدائع الصنائع، کتاب الأذان، فصل بیان ما یجب علی السامعین عند الأذان، ۱/۳۸۳)

وإذا سمع المسنون منه" أي الأذان وهو ما لا لحن فيه ولا تلحين "أمسك" حتى عن التلاوة ليجيب المؤذن ولو في المسجد وهو الأفضل، وفي الفوائد يمضي على قراءته إن كان في المسجد.(مراقي الفلاح : ۸۰، باب الأذان)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 رمضان المبارک 1439

1 تبصرہ: