*انگریزی بال رکھنے والے کی امامت کا حکم*
سوال :
مفتی صاحب ! ایک مسئلہ کا جواب مطلوب ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد کا امام ہو اور وہ جدید فیشن ایبل دَور کے کی متابعت کرتے ہُوئے اپنے بالوں کو یا تو مختلف جگہوں سے کاٹ کر یا اوپر کے بالوں کو بڑا اور نیچے کے بالوں کو چھوٹا کرکے رکھتا ہو تو شریعت میں ایسے امام کی اقتداء کرنا کیسا ہے؟
کیا اُس کے پیچھے نماز ادا ہوجائے گی؟
شریعت کی روشنی میں مدلّل تشفّی بخش اور قابلِ تسکین جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : کامران حسّان مُحمّدی، مالیگاؤں)
----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے موئے مبارک کبھی نصف کان تک کبھی کان کی لَو تک ہوتے اور جب بڑھ جاتے تو شانۂ مبارک سے چُھو جاتے، اس لئے پورے سرپر بال رکھے جائیں یا سب کے سب منڈا دیئے جائیں جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کا معمول تھا ۔ یا مساوی طور پر کٹوائے جائیں، کچھ حصہ منڈانا اور کچھ حصہ میں بال رکھنا، یا چھوٹے بڑے اتار چڑھاؤ بال رکھنا جو آج کل فیشن ہے اور انگریزی بال سے موسوم ہے یہ خلاف سنتِ ہے، نصاریٰ فساق اور فجار کی ہئیت کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے، اور احادیث میں بھی ایسے بال رکھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے ۔
حضرت نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے نبی ﷺ کو قزع سے منع کرتے ہوئے سنا۔ نافع رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ قزع سے کیا مراد ہے کہا کہ بچے کے سر کا کچھ حصہ تو مونڈ دیا جائے اور کچھ کو چھوڑ دیا جائے۔ (بخاری ومسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بچے کو دیکھا جس کے سر کا کچھ حصہ تو مونڈا گیا تھا اور کچھ حصہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس (طرح کرنے) سے لوگوں کو منع کیا اور فرمایا یا تو پورے سر کو مونڈو یا پورے سر کو چھوڑ دو۔(مسلم)
منصب امامت ایک جلیل القدر عہدہ ہے، اس پر فائز شخص متقی، پرہیزگار، متبعِ سنت ہونا چاہیے، لہٰذا جو امام فیشن ایبل اور انگریزی بال رکھتا ہو تو چونکہ یہ خلافِ سنت امر ہے، اگر امام اس پر مداومت اختیار کیے ہوئے ہو، اور اپنی اس غلط روش کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہ ہو، تو اس کے "فاسق" ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، جس کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، لیکن اگر فاسق امام کے علاوہ دوسرا امام دستیاب نہ ہو یا قریب میں کوئی دوسری مسجد نہ ہو تو تنہا نماز پڑھنے کے مقابلہ میں ایسے شخص کی اقتداء میں باجماعت نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے، اس صورت میں باجماعت نماز ادا کرنے کا ثواب مل جائے گا، اور ہر دو صورت میں فاسق کی اقتداء میں ادا کی گئی نماز ادا ہوجائے گی، اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
وکرہ إمامۃ الفاسق لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً، فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ ( تحتہ) کون الکراہۃ فی الفاسق تحریمیۃ ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ،کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ،/۱۶۵)
وفی الفتاوی لو صلی خلف فاسق أو مبتدع، ینال فضل الجماعۃ لکن لاینال کما ینال خلف تقی ورع الخ۔ (البحرالرائق، کتاب الصلوٰۃ، باب الإمامۃ، ۱/۶۱۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 جمادی الاول 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں