بدھ، 2 جنوری، 2019

صاحبِ ترتیب کے لیے فرائض اور وتر کے درمیان ترتیب واجب ہے

*صاحبِ ترتیب کے لیے فرائض اور وتر کے درمیان ترتیب واجب ہے*

سوال :

کیا صاحب ترتیب کے لیے وتر بھی اثر انداز ہوگی؟ یعنی اگر وتر فوت ہو جائے تب بھی صاحب ترتیب کی ترتیب فوت ہو جائے گی نیز وتر سے پہلے فجر کی نماز درست نہیں ہوگی یا صرف فرائض کے ساتھ یہ مسئلہ ہے؟
(المستفتی : محمد معاذ ، مالیگاؤں)
----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حضرات صاحبینؒ کے نزدیک وتر کی نماز واجب نہیں ہے، سنت ہے اور سنتیں فرض کے تابع ہوتی ہیں اور وتر کی نماز حضرات صاحبینؒ کے نزدیک عشاء کی سنن بعدیہ کی طرح عشاء کے تابع ہے، لہٰذا اگر عشاء کی فرض نماز پڑھ لی گئی ہے اور سنتیں رہ گئی ہیں، اسی حالت میں فجر کا وقت ہوکر دن طلوع ہوگیا ہے تو اب سنتوں کی قضاء لازم نہیں، اس لئے کہ وقت نکل جانے کے بعد سنتوں کی قضاءنہیں ہوا کرتی ہے، لہٰذا صاحبینؒ کے قول کے مطابق صاحب ترتیب کی ترتیب باقی رہے گی، وتر کی نماز فوت ہوجانے کی وجہ سے صاحب ترتیب کی ترتیب میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔

والمسألۃ الثانیۃ: وہو أن من صلی الفجر وہو ذاکر أنہ لم یوتر … عندہما یجوز؛ لأن مراعاۃ الترتیب بین السنۃ والمکتوبۃ غیر واجبۃ۔ (بدائع الصنائع، زکریا ۱/ ۶۱۰)

والوتر کالفرض عملا، فذکرہ مفسد عند الإمام خلافا لہما، ومبنی الخلاف علی أن الوتر واجب عندہ، وسنۃ عندہما، ولا ترتیب بین الفرائض والسنن۔ (مجمع الأنہر، کتاب الصلاۃ، باب الوتر، مکتبہ فقہ الأمت ۱/ ۲۱۶، مثلہ في الہدایۃ، أشرفی بکڈ پو دیوبند ۱/ ۱۵۶)

جبکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک وتر ایک مستقل واجب نماز ہے، سنت کی طرح عشاء کے تابع نہیں ہے، اس لئے جس طرح فرض نمازوں کے درمیان صاحب ترتیب پر ترتیب کا باقی رکھنا واجب ہوا کرتا ہے، اسی طرح فرض اور وتر کے درمیان میں بھی ترتیب کا باقی رکھنا واجب ہے اور وقت نکل جانے کے بعد بھی وتر کی نماز قضاء کرنا ذمہ میں واجب رہتا ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں امام ابوحنیفہؒ کے قول کے مطابق اگر کسی شخص کی وتر ملاکر چھ نمازیں قضا ہو گئیں تو وہ صاحب ترتیب باقی نہیں رہے گا ۔ نیز صاحبِ ترتیب کے لیے نماز وتر اور فجر میں ترتیب قائم رکھنا واجب ہے ۔ اور یہی قول احوط و اسلم ہے ۔

والمسألۃ الثانیۃ : وہو أن من صلی الفجر وہو ذاکر أنہ لم یوتر وفي الوقت سعۃ لا یجوز عندہ؛ لأن الواجب ملحق بالفرائض في العمل، فیجب مراعاۃ الترتیب بینہ وبین الفرائض۔ (بدائع الصنائع، زکریا ۱/ ۶۱۰)

فلو صلی فرضا ذاکرا فائتۃ ولو کانت وترا فسد فرضہ فسادا موقوفا، وتحتہ في حاشیۃ الطحطاوي قولہ: ولو کانت وترا: أي لأنہ فرض عملی عندہ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، أشرفیہ بکڈپو ۴۴۴)

لو صلی الصبح وہو ذاکر أنہ لم یصل الوتر، فصلاۃ الصبح فاسدۃ عند أبي حنیفۃ لوجوب الترتیب بین الوتر والفریضۃ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۷/ ۳۰۱)

فرض الترتیب بین الفروض الخمسۃ والوتر فائتا کلہا أو بعضہا، أي إن کان الکل فائتا فلا بد من رعایۃ الترتیب بین الفروض الخمسۃ، وکذا بینہا وبین الوتر، وکذا إن کان البعض فائتا والبعض وقتیا لابد من رعایۃ الترتیب، فیقضی الفائتۃ قبل أداء الوقتیۃ ولم یجز فرض فجر من ذکر أنہ لم یوتر … ہذا عند أبي حنیفۃ … بناء علی وجوب الوتر عندہ۔(شرح وقایۃ، مکتبہ یاسر ندیم ۱/ ۱۸۱-۱۸۲)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ربیع الآخر 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں