اتوار، 20 جنوری، 2019

قبر میں عہد نامہ، شجرہ رکھنے اور اس وصیت کا حکم

سوال :

بعض لوگ اپنے پیرصاحب کی جانب سے موصول شجرہ کو یا عہد نامہ نامی کتابچہ کو مردے کے سینے پر رکھ دیتے ہیں اور بعض لوگ مرنے سے پہلے اس کی وصیت بھی کرتے ہیں۔ سوال کرنے پر کہتے ہیں کہ اس کے ذریعے قبر میں عذاب نہیں ہوتا اور مردے کو قبر میں راحت ہوتی ہے۔ لوگوں کا یہ عمل کرنا کیسا ہے؟ آج بھی ہمارے شہر میں درجنوں افراد اس عمل کو کرتے ہیں۔ مفصّل جواب ارسال فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : اسماعیل جمالی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قبر میں میت کے ساتھ عہد نامہ نامی کتابچہ اور اپنے پیر کا شجرہ رکھنا محض بے اصل اور بدعت ہے، اس سے عذاب قبر رفع ہونے کے بجائے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ عہد نامہ چند مخصوص سورتوں کا مجموعہ ہے جس میں اس عہد نامہ کی فضیلتیں بھی ذکر کی گئی ہیں جو من گھڑت ہیں ان فضیلتوں کے یقین کے ساتھ پڑھنا جائز نہیں، کیونکہ قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ہے۔

علامہ شامی رحمہ اللہ اس عہد نامہ کو نقل کرنے کے بعد اخیر میں نقل فرماتے ہیں کہ قرآنی آیتیں اور اس طرح کی دعائیں کفن کے اوپر لکھنا سخت بے ادبی ہے۔ اور جنہوں نے کفن پر لکھنے پر قیاس کیا ہے یہ قیاس ممنوع اور ساقط الاعتبار ہے، جب میت کی ہڈی، گوشت گل جائیں گے، تو قرآن کی آیت اور دعاؤں کے الفاظ نجاستوں کے ساتھ ملوث ہوجائیں گے، یہ قطعاً درست نہیں ہے۔ اس لئے قبر میں رکھنے سے اس کی ممانعت کی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ جب یہ عمل ہی جائز نہیں ہے تو اس کی وصیت کرنا بھی بدرجہ اولی ناجائز ہوگا، اور اگر کسی نے یہ وصیت کردی تو اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا اور نہ ہی یہ وصیت پوری کی جائے گی۔

وَقَدْ أَفْتَى ابْنُ الصَّلَاحِ بِأَنَّهُ لَا يَجُوزُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَى الْكَفَنِ يس وَالْكَهْفُ وَنَحْوُهُمَا خَوْفًا مِنْ صَدِيدِ الْمَيِّتِ وَالْقِيَاسُ الْمَذْكُورُ مَمْنُوعٌ لِأَنَّ الْقَصْدَ ثَمَّ التَّمْيِيزُ وَهُنَا التَّبَرُّكُ، فَالْأَسْمَاءُ الْمُعَظَّمَةُ بَاقِيَةٌ عَلَى حَالِهَا فَلَا يَجُوزُ تَعْرِيضُهَا لِلنَّجَاسَةِ، وَالْقَوْلُ بِأَنَّهُ يُطْلَبُ فِعْلُهُ مَرْدُودٌ لِأَنَّ مِثْلَ ذَلِكَ لَا يُحْتَجُّ بِهِ إلَّا إذَا صَحَّ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - طَلَبُ ذَلِكَ وَلَيْسَ كَذَلِكَ۔ (شامی : ۲/ ۲۴۶)

الاستفسار: قد تعارف في بلادنا أنہم یلقون علی قبر الصلحاء ثوباً مکتوباً فیہ سورۃ الإخلاص، ہل فیہ بأس؟
الاستبشار : ہو استہانۃ بالقرآن ؛ لأن ہٰذا الثوب إنما یلقی تعظیماً للمیت ویصیر ہٰذا الثوب مستعملاً مبتذلاً، وابتذال کتاب اللّٰہ من أسباب عذاب اللّٰہ۔ (نفع المفتي والسائل ۴۰۳ دار ابن حزم، بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۸؍۵۳۶ ڈابھیل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 جمادی الاول 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں