*قوتِ باہ کے علاج سے متعلق چند سوالات*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ دور حاضر میں گناہوں کے سبب 24 سال کے نوجوانوں کی حالت قوت باہ میں 70 سال کے بوڑھوں جیسی ہوگئی ہے، ایسے میں یہ حضرات ایلوپیتھی دوا سلڈینا فل street کا استعمال کرتے ہیں جس سے وقتی طور پر انتشار کامل اور قوت امساک حاصل ہوجاتی ہے مگر اس کے استعمال سے جو نقصان ہوتا ہے وہ بہت بڑھا ہوا ہے، اعضائے رئیسہ کے ساتھ باہ مزید کمزور ہوجاتی ہے حتی کہ مریض کو دوا گولی استعمال کرنا پڑتا ہے، اس دوا کے نقصانات کی وجہ سے حکومت نے اس پر پابندی لگادی ہے، اگر یہ کسی میڈیکل پر فروخت ہوتے ہوئے پکڑی گئی تو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے یا پھر میڈیکل سِیل کردی جاتی ہے، اسی طرح بعض لوگ اس گولی کو پیس کر معجون میں ملا کر یونانی دوا بتلا کر یا پھرکیپسول میں بھر کر فروخت کرتے ہیں جب کہ اگر صحیح طریقے سے اطمینان کے ساتھ کسی ماہر حکیم یا ڈاکٹر سے علاج کروایا جائے تو مذکورہ تکالیف سے نجات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ قوت باہ کی کمزوری میں مبتلا شخص کیلئے یہ دوا استعمال کرنا جائز ہوگا؟ جبکہ اس سے مزید نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہی نہیں بلکہ یقینی چیز ہے اورمحفوظ علاج بھی موجود ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس طرح میڈیکل والوں کیلئے اور معجون و کیپسول میں بھر کر دینے والوں کے لئے کیا حکم ہوگا؟ جبکہ دونوں اس کے مضرت سے واقف ہیں چاہیں تو مریض کو سمجھاکرصحیح علاج کی طرف راغب کرسکتے ہیں۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حافظ محمد رافع الدین ملی، تکمیلی یونانی شفاء خانہ، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر واقعی یہی صورت ہے جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے تو قوتِ باہ کے مرض میں علاج کے لیے مذکورہ دواؤں کا استعمال جائز نہ ہوگا، اس لئے کہ ان دواؤں کا استعمال کرنا گویا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۔ (سورہ بقرہ، آیت : 195)
ترجمہ : اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
لہٰذا جب محفوظ اور مامون طریقہ علاج موجود ہے تو اسے ہی اختیار کرنا چاہیے۔
2) میڈیکل والوں کا ایسی دواؤں کا فروخت کرنا مضرِصحت ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے، بشرطیکہ وہ خود مریض کو اس دوا کے استعمال کا مشورہ نہ دے رہے ہوں۔ اگر وہ خود مریض کو اس دوا کا مشورہ دے رہے ہوں تب تو اس کا فروخت کرنا دھوکہ ہونے کی وجہ سے جائز نہ ہوگا، بشرطیکہ میڈیکل والوں کو اس کے نقصان دِہ ہونے کا علم ہو۔ اور اگر اس کے نقصان دہ ہونے کا علم نہ ہو بلکہ وہ اپنے علم کے مطابق اس دوا کو مریض کے لیے مفید سمجھتے ہوں اور خیرخواہی میں اس کا مشورہ دے رہے ہوں تو ایسی صورت میں اس کے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اسی طرح ڈاکٹر و حکیموں کا ان دواؤں کوکیپسول میں بھرکر یا معجون میں ملاکر قوتِ باہ کے مریض کو دینا جب کہ وہ اس کے نقصانات سے واقف ہیں، دھوکہ ہونے کی وجہ سے شرعاً جائز نہیں ہے، کیونکہ مریض کا گمان تو یہی ہوتا ہے کہ مجھے اپنے مرض کی دوا دی جارہی ہے جبکہ چند روپیوں کے لیے اسے دوا کے نام پر مزید ہلاکت کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے جو سنگین دھوکہ اور حرام عمل ہے، خود زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسے لوگوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ "یہ لوگ ہم میں سے نہیں"۔ اور ایسی آمدنی پر بھی حرام کا حکم ہے۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من غش فلیس منا، انتہی الحدیث، قال الترمذي : والعمل علی ہٰذا عند أہل العلم کرہوا الغش، وقالوا: الغش حرام۔ (سنن الترمذي ۱؍۲۴۵)
اتفق الفقہاء علی أن الغش حرام، سواء أکان بالقول أم بالفعل ، وسواء أکان بکتمان العیب في المعقود علیہ أو الثمن أم بالکذب والخدیعۃ ، وسواء أکان في المعاملات أم في غیرہا من المشورۃ والنصیحۃ ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ، ۳۱/۲۱۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 جمادی الاول 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں