منگل، 15 جنوری، 2019

بلی پالنے سے متعلق شرعی احکام

*بلی پالنے سے متعلق شرعی احکام*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین مسئلہ ھذا کے بارے میں کہ بلی پالنا کیسا ہے؟ ایک شخص ہے اور اس نے کئی روز سے اپنے شوق کے لئے بلی پال رکھی ہے کھانا پینا بھی دیتا ہے، اور اب وہ حاملہ ہو گئی ہے تو کیا اس کا کسی دور جگہ پر چھوڑ دینا بہتر ہے؟ اسے چھوڑنے والا شخص گناہ گار ہوگا یا نہیں؟ برائے کرم جواب جلد از جلد ارسال فرمائیں۔
(المستفتی : شرجیل انجم ملی الندوی/مالیغاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بلی کے کھانے پینے کا معقول انتظام ہوتو اس کا پالنا شرعاً جائز اور درست ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے متعلق مشہور ہے کہ آپ نے بلی پال رکھی تھی۔

البتہ بلی پالنے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بلی پانی یا کھانے کی کسی چیز میں منہ ڈال دے تو ان چیزوں کا استعمال مکروہ تنزیہی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایسے پانی سے وضو نہ کیا جائے اور اس کے جھوٹے کھانے کو نہ کھایا جائے، تاہم اگر اس پانی سے وضو کرلیا گیا تو وضو درست ہوجائے گا۔ لیکن اگر بلی چوہا کھا کر فوراً کسی برتن میں منہ ڈال دے تو وہ برتن اور پانی وغیرہ قطعاً ناپاک ہوجاتا ہے۔

صورت مسئولہ میں دونوں باتوں کی گنجائش ہے، اگرچاہے تو اپنے پاس رکھے یا کسی محفوظ جگہ اسے چھوڑ دے، شرعاً اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

ویقال کان في الجاہلیة اسمہ عبد شمس أبو الأسود، فسماہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ وکناہ أبا ہریرة․ والمشہور عنہ أنہ کنی بأولاد ہرة بریة۔ قال : وجدتہا فأخذتہا فی کمي فکنیت بذلک۔ (سیرأعلام النبلاء: ۲/۵۷۹)

وذکر فی صلاۃ الأصل المستحب أن لا یتوضأ بسؤر الہرۃ، وإن توضأ بہٖ أجزأہٗ۔ (المحیط البرہانی : ۱؍۲۸۶)

إذا أکلت فارۃً وشربت من إناء علی فورہا ذٰلک یتنجس الماء بلا خلافٍ۔ (درمختار : ۱؍۳۸۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 جمادی الاول 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں