*حرمین شریفین میں غیرحنفی امام کی اقتداء میں وتر پڑھنا*
سوال :
اگر کوئی مقتدی حنفی ہو اور امام کسی اور مسلک کا مثلاً حنبلی ہو اور وہ وتر دوسلام سے پڑھائے تو حنفی مقتدی کیا کرے گا ؟ جیسا کہ یہ مسئلہ رمضان المبارک میں حرمین شریفین میں معتمرین کو پیش آتا ہے۔
(المستفتی : محمد معاذ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے نزدیک وتر کی تینوں رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنا واجب ہے، دو رکعت پر سلام جائز نہیں ہے، اس لئے عام حالات میں حنفیہ کا راجح اور مفتی بہ قول یہی ہے کہ دو سلاموں کے ساتھ وتر پڑھنے والے کے پیچھے حنفی شخص کی نماز وتر ادا نہیں ہوگی۔
البتہ حنفی مسلک کے مشہور فقیہ امام ابوبکر الجصاص الرازی اور علامہ ابن وہبان کے نزدیک حنفی شخص کی نماز اس کے پیچھے صحیح ہوجائے گی۔ لہٰذا حرمین شریفین میں حنفی لوگوں کے لئے مسجد حرام و مسجد نبوی کے امام کی اقتداء میں وتر پڑھنا درست ہے، لیکن جب امام دو رکعت پر سلام پھیر کر ایک رکعت کے ساتھ تکمیل کرے تو حنفی سلام نہ پھیرے اور اس کے ساتھ وتر کی بقیہ رکعت بھی پڑھ لے۔
نیز دسویں فقہی سمینار میں بلا کسی اختلاف کے تمام علماء اور مفتیان نے حرمین شریفین میں جواز پر اتفاق کرلیا ہے، لیکن حرمین شریفین کے علاوہ دنیا کے کسی اور مقام میں ایسی مجبوری نہیں ہوتی، اس لئے دیگر مقامات میں راجح قول کے مطابق اقتدا درست نہ ہوگی، حنفی حضرات اپنے وتر الگ سے ادا کریں گے۔ (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے:ص/۴۶، ۴۷، حج وعمرہ کے مسائل، دسواں فقہی سمینار، تجویز:۱۳/فتاوی قاسمیہ)
مذہب الحنفیۃ أنہ لا وتر عندہم إلا بثلاث رکعات بتشہدین وتسلیم، نعم لو اقتدی حنفي بشافعي في الوتر وسلم ذلک الشافعي الإمام علی الشفع الأول علی وفق مذہبہ، ثم أتم الوتر صح وتر الحنفي عند أبي بکر الرازي وابن وہبان ۔ (معارف السنن، أبواب الوتر، مسألۃ اقتداء الحنفي بالشافعي في الوتر، اشرفیہ دیوبند ۴/ ۱۷۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ربیع الآخر 1440
ہمارے یہاں وتر واجب ہے انکے شوافع کے نزدیک سنت ہے تو کیا سنت کی نیت کرنے والے کے پیچھے واجب ادا کرنا درست ہے؟؟
جواب دیںحذف کریں