سوال :
نیرہ جو کہ تاڑ کہ درخت سے حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے شہر میں بھی کئی جگہ صبح کے وقت فروخت ہوتا ہے۔ سٹی کالج کے پاس اور کیمپ کے علاقہ میں، اس کہ بارے میں کیا حکم ہے؟ پی سکتے ہیں یا نہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سورج نکلنے سے پہلے پی سکتے ہیں اور اور کچھ لوگ پینے سے منع کرتے ہیں۔
(المستفتی : انصاری عاصم، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نیرہ جو کہ تاڑ اور کھجور کے درخت سے نکالا جانے والا رس ہے جسے تاڑی بھی کہا جاتا ہے، اس کے نشہ آور ہونے یا نہ ہونے میں ضابطہ اور اصول یہ ہے کہ اگر اس میں جھاگ پیدا ہوگئی تو وہ نشہ آور بن جاتا ہے، ایسی صورت میں اُس کا تھوڑا یا زیادہ پینا ناجائز ہے۔ حضرت امام محمدؒ اور ائمہ ثلاثہ کا یہی قول ہے، اور احناف کے یہاں بھی فتویٰ اِسی قول پر ہے۔ لیکن جب تک جھاگ نہ اٹھے اس میں نشہ پیدا نہیں ہوتا اس وقت تک اس کے پینے کی گنجائش ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دھوپ پڑنے کے بعد اس سے جھاگ اٹھتی ہے، اس سے پہلے نہیں۔ یہ تو اصل مسئلہ ہوا، لیکن اندیشہ یہ بھی ہے کہ بغیر نشے والا مشروب کہیں پینے والے کو نشہ آور مشروب تک نہ پہنچادے، لہٰذا زیادہ بہتر یہ ہے کہ ایسے مشروب کے استعمال سے احتراز کیا جائے۔
عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: کل شراب أسکر فہو حرام۔ (صحیح البخاری، باب لایجوز الوضوء بالنبیذ ولاالمسکر، ۱/۳۸، رقم۲۴۲)
وأما الشافعي وأحمد ومالک ومحمد بن الحسن وجمہور الصحابۃ فذہبوا إلی أن المسکر المائع من کل شيء یحرم قلیلہ وکثیرہ أسکر أو لم یسکر، والجامد لیس بخمر، وافتی أرباب الفتویٰ ہٰذا بقول محمد بن الحسنؒ۔ (شامي : ۱۰؍۳۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ربیع الآخر 1440
جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریں