*نومولود کے کان میں اذان دینے کے احکامات*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ بچوں کے کان میں اذان دینے سے متعلق احکامات مفصل تحریر فرمادیں، اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : شکیل بھائی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نومولود خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، اسے نہلا دُھلا کر، پاک صاف کپڑے پہناکراُس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مسنون و مستحب ہے، اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے فرزند ارجمند حضرت حسن ابن علی رضی اللہ عنہما کی ولادت پر اُن کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تھی۔
نومولود کے کان میں اذان اور اقامت کے بارے میں بھی تقریباً وہی مسائل و احکامات ہیں، جو نماز سے قبل دی جانے والی اذان کے ہیں، اس اذان و اقامت میں بھی مسنون ومستحب ہے کہ نومولود کے کان میں اذان دینے والا عاقل بالغ نیک صالح مرد ہو، باوضو ہو، قبلہ رُو ہو، اور کھڑے ہوکر ٹھہر ٹھہر کے اذان دے اور اقامت کے کلمات بہ نسبت اذان کے جلدی جلدی ادا کرے۔ ”حيّ علی الصلاة“ کہتے ہوئے چہرہ دائیں طرف اور ”حيّ علی الفلاح“ کہتے ہوئے چہرہ بائیں طرف پھیرے۔
البتہ اس اذان و اقامت میں ”الصلاة خیر من النوم“ کہنے، آواز بلند کرنے، کانوں میں انگلیاں ڈالنے کی، اذان کے کلمات بہت زیادہ ٹھہر ٹھہر کے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
نومولود کے کان میں اذان دینے کے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اذان دینے والا نومولود کو اپنے ہاتھوں میں اٹھالے اور دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے۔ تاہم بچہ دوسرے کے ہاتھوں میں ہو اور اذان دینے والا کانوں میں انگلیاں ڈال کر اذان دے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، قَالَا : أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ۔ (سنن ترمذی، رقم : ١٥١٤)
ویترسل فیہ ویلتفت فیہ وکذا فیہا مطلقاً یمیناً ویساراً بصلوۃ وفلاح ولو وحدہ أو لمولود؛ لأنہ سنۃ الأذان مطلقا، وفي الشامیۃ : و في البحر عن السراج أنہ من سنن الأذان، فلا یخل المنفرد بشيء منہا، حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود ینبغي أن یحول قولہ مطلقاً: للمنفرد وغیرہ و المولود وغیرہ۔ (درمختار مع الشامي، ۲؍۵۳ زکریا)
وقال الشیخ عبد القادر الرافعي في تقریراتہ: قال السندي : فیرفع المولود عند الولادۃ علی یدیہ مستقبل القبلۃ ویؤذن في أذنہ الیمنیٰ ویقیم في الیسریٰ ویلتفت فیہما بالصلاۃ لجہۃ الیمین وبالفلاح لجہۃ الیسار۔ (تقریرات الرافعي الملحقۃ بالفتاویٰ الشامیۃ ۲؍۴۵ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ربیع الاول 1440
جزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللّہ خیر
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا
مفتی صاحب میرا ایک سوال یہ ہے کہ اذان کیلئے کانوں میں انگلیاں کیوں ڈالتے ہیں؟
جواب دیںحذف کریںآواز بلند کرنے کے لیے، نماز کی اذان والے مسئلہ میں اس کا جواب موجود ہے۔
حذف کریںواللہ تعالٰی اعلم
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںJazakallah
جواب دیںحذف کریں