*طلباء سے مالی جرمانہ وصول کرنے کا حکم*
سوال :
مفتی صاحب بعض مرتبہ اسکول کالجوں میں کام کے پورا نہ کرنے، کلاس میں حاضری کے کم ہونے، یا اور دیگر وجوہات کی بناء پر بنام (Fine) مالی جرمانہ لیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح مالی جرمانہ لینا کیسا ہے؟ اور اس مالی جرمانے کا استعمال اسکول کالجوں میں کرنا کیسا ہے؟
(المستفتی : عبدالرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اسکول اور کالجوں میں طلباء کے بلا اطلاع غیر حاضر رہنے یا اور کسی ضابطہ کی خلاف ورزی کی صورت میں ان سے مالی جرمانہ وصول کرنا جمہور علماء امت بشمول طرفین (امام ابو حنیفۃ اور امام محمد رحمهما اللہ) کے نزدیک جائز نہیں ہے ۔ اگر وصول کرلیا گیا ہوتو اسکا واپس کرنا ضروری ہے، جرمانہ کی رقم اسکول، کالج کے اخراجات اور اساتذہ کی تنخواہ میں استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ البتہ اگرنظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لیے مالی جرمانہ لینا ناگزیر ہو تو اس کی گنجائش ہے، لیکن سال کے اخیر میں یا بعد میں کبھی بھی واپس کرنا ضروری ہوگا۔
اسی طرح یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ اسکول، کالج کی انتظامیہ طلباء سے ان کی رضامندی سے یہ معاہدہ کرلے کہ انتظامیہ کے بنائے ہوئے ضابطہ کی خلاف ورزی کی صورت میں ان پر مثلاً ۱۰۰؍ روپئے رفاہِ عام کیلئے صدقہ کرنا لازم ہوگا، تو اس معاہدہ کی رو سے ۱۰۰؍ روپئے لینا، اور اسے متعینہ مد میں صرف کرنا جائز ہوگا، کسی معلم اور ذمہ دار کیلئے اس رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہ ہوگا، متعینہ مد میں صرف کرنا ضروری ہوگا۔
عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، رقم : ۲۷۶۲)
التعزیر بالمال جائز عند أبی یوسف، وعندہما وعند الأئمۃ الثلاثۃ لایجوز، وترکہ الجمہور للقرآن والسنۃ : وأما القرآن فقولہ تعالی :{فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم} ۔ وأما السنۃ فإنہ علیہ السلام قضی بالضمان بالمثل ولأنہ خبر یدفعہ الأصول فقد أجمع العلماء علی أن من استہلک شیئاً لم یغرم إلا مثلہ أو قیمتہ۔ (اعلاء السنن : ۱۱/۷۳۳)
وَفِي الْبَحْرِ وَلَا يَكُونُ التَّعْزِيرُ بِأَخْذِ الْمَالِ مِنْ الْجَانِي فِي الْمُذْهَبِ۔ (مجمع الأنہر : ۱/۶۰۹)
وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَذْهَبَ عَدَمُ التَّعْزِيرِ بِأَخْذِ الْمَالِ۔ (شامی : ٤/٦٢)
لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ.۔ (شامی : ٤/٦١)
قال اللہ تعالٰی : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا۔ (سورۃ الاسراء، آیت : ۳۴)
وأوفوا بالعہدأي ما عاہدتم اللہ تعالی علیہ من التزام تکالیفہ وعاہدتم علیہ غیرکم من العباد، ویدخل فی ذلک العقود۔ (روح المعانی : ۹/۱۰۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 ربیع الاول 1440
بہت شکرہہ جناب
جواب دیںحذف کریں