جمعرات، 6 دسمبر، 2018

تبرکات کی شرعی حیثیت اور اس کی زیارت کا حکم

*تبرکات کی شرعی حیثیت اور اس کی زیارت کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب ہمارے شہر عزیز مالیگاؤں میں  " زیارت تبرکات" کے پروگرام کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور کچے علاقے کے لوگ اس میں بڑے ہی ادب و احترام سے شرکت کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ تبرکات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا واقعی میں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے تبرکات ہیں؟ کیا ایسی محفلوں میں شرکت کرنا جائز ہے؟
(المستفتی : محمد عارف، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی یا کسی ولی کامل کی استعمال کردہ چیزوں سے برکت حاصل کرنا ثابت ہے ۔

ہمارے دلائل ملاحظہ فرمائیں :

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتہ مبارک تھا فرماتی ہیں کے ہم اسکو دھو کر وہ پانی اپنے مریضوں کو بغرض شفا پلا دیا کرتے تھے ۔ (١)

اسامہ ابن زید سے روایت ہے کہ عبداللہ ابن ابی جب مرا تو اس کا بیٹے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمیں اپنا کرتہ عنایت کیجئے، کہ ہم اس میں اس کا کفن بنائیں اور آپ اس پر نماز پڑھیں اور اس کے لئے دعا مغفرت کریں، نبی ﷺ نے اس کو اپنا کرتہ عنایت کیا ۔ (٢)

ایک دن وضو کا پانی آپ ﷺ کے پاس لایا گیا آپ ﷺ نے وضو کیا (جب وضو کر چکے تو) لوگ آپ ﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر اس کو اپنے چہرہ اور آنکھوں پر ملنے لگے ۔ (٣)

اسی طرح حدیث شریف سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بال مبارک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان تقسيم فرمائے ہیں ۔

حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بال مبارک منڈواکر آدھے سر کے بال ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو دئیے اور آدھے لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دئیے ۔ (٤)

ہمارے زمانے میں اگر کسی کے پاس یہ تبرکات ہوں تو یہ کوئی ناقابل یقین بات نہیں ہے، لیکن اس کی صحیح اور قابل اعتماد سند ہو تب ہی اس کی تعظیم اور زیارت درست بلکہ باعث خیر و برکت ہوگی ۔ لیکن اگر سند نہ ہو اور بناوٹی اور من گھڑت ہونے کا بھی یقین نہ ہو تو خاموشی اختیار کی جائے، اس صورت میں اس کی زیارت و تعظیم کرنا جائز نہ ہوگا ۔ اور نہ ہی اس کی تکذیب اور اہانت کی جائے گی ۔

تبرکات سے برکت حاصل کرنے کا صحیح اور جائز طريقہ یہ ہے کہ خاص تاریخ طے کئے بغیر اور لوگوں کے جمع کرنے کا اہتمام کئے بغیر جب دل چاہے زیارت کی جائے اور کروائی جائے، اور زیارت کرنے والے اس موقع پر ایسا کوئی عمل نہ کریں جو خلافِ شرع ہو، مثلاً اُسے سجدہ کرنا، اُس کا طواف کرنا، اس کی منت ماننا، اس پر چڑھاوے چڑھانا وغیرہ، ورنہ تبرکات سے جس خیر وبرکت کی امید ہے وہ معصیت اور گناہ میں تبدیل ہوکر باعث عذاب و عقاب ہوجائے گی ۔

بطور خاص ملحوظ رہے کہ ہم اہل سنت و الجماعت تبرکات سے برکت حاصل ہونے کو درست مانتے ہیں، لیکن اسی کو سب کچھ سمجھ لینا قطعاً درست نہیں ہے، اس لئے کہ نجات اور کامیابی تو عمل سے ہوگی، احکام خداوندی کی تعمیل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر صرف دکھاوے کی محبت اور دعوی اخروی کامیابی کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ یہ ایک خوبصورت دھوکہ ہے جس سے نکلنا ضروری ہے ۔

١) فَقَالَتْ هَذِهِ کَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ حَتَّی قُبِضَتْ فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا وَکَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُهَا فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَی يُسْتَشْفَی بِهَا ۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2069)

٢) عن اسامۃ بن زید قال خرج رسول اﷲﷺ یعود عبداﷲ ……فلما مات اتاہ ابنہ فقال یانبی اﷲ ان عبداﷲ ابن ابیّ قدمات فاعطنی قمیصک اکفنہ فیہ فنزع رسول اﷲﷺ قمیصہ فاعطاہ ایاہ ۔ (سنن ابی داؤد ۸۵/۲)

٣) قال ابوموسی ؓ دعا النبیﷺ بقدح فیہ ماء فغسل یدیہ ووجھہ فیہ ومج فیہ ثم قال لھما اشربامنہ وافرغا علی وجوھکما ونحورکما ۔ (صحیح بخاری۳۱/۱)

٤) عن انس ؓ ان النبیﷺ اتی منیٰ فاتی الجمرۃ ……ثم دعا بالحلاق وناول الحالق شقہ الایمن فحلقہ ثم دعاابا طلحۃ الانصاری ؓ فاعطاہ ایاہ ثم ناول الشق الایسر فقال احلق فحلقہ فاعطاہ اباطلحۃ  ؓ فقال اقسمہ بین الناس ۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1305)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 ربیع الاول 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں