اتوار، 9 دسمبر، 2018

نماز میں اعوذ باللہ بسم اللہ کا حکم

*نماز میں اعوذ باللہ بسم اللہ کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب! نماز کی پہلی اور باقی کی رکعتوں میں اعوذباللہ اور بسم اللہ پڑھنے کی کیا ترتیب ہے؟ تفصیل سے بتائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : ابوسفیان، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ثناء کے بعد سورہ فاتحہ سے پہلے تعوذ یعنی أعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم (میں اللہ تعالیٰ کی شیطان لعین سے پناہ مانگتا ہوں) پڑھنا مسنون ہے، اس کے بعد "أعوذ باللہ" اور کہیں نہیں پڑھا جائے گا۔

نماز کی ہر رکعت میں  سورہ فاتحہ سے پہلے تسمیہ یعنی "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پڑھنا بالاتفاق مسنون ہے۔ اور سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورۃ ملانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بہتر ہے، مسنون نہیں۔ البتہ درمیان سورۃ سے قرأت شروع کی جائے تو بسم اللہ پڑھنا بہتر نہیں ہے۔

وسادسہا التعوذ۔ (حلبی کبیر۳۸۲، بدائع الصنائع ۱؍۴۷۲، مراقی الفلاح ۱۵۳)

والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو ببعضہا وہو منفرد حتیٰ یثني و یتعوذ و یقرأ۔ (در مختار مع شامی، کتاب الصلوٰۃ باب الامامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما کراچی ۱/۵۹۶) 

عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفتتح صلاتہ بـ ’’بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم‘‘۔ (سنن الترمذي، الصلاۃ / باب من رأی الجہر بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ۱؍۵۷ رقم: ۲۴۵)

عن ابن عمر أنہ کان إذا افتتح الصلاۃ قرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم، فإذا فرغ من الحمد قرأبسم اللہ الرحمن الرحیم۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۱/ ۳۷۷، رقم: ۴۱۵۵، جدید ۴۱۷۸، المعجم الأوسط، دارالکفر ۱/ ۲۴۵، رقم: ۸۴۱)

وروی عن أبي نصر عن محمد رحمہ ﷲ: أنہ یأتي بالتسمیۃ عند افتتاح کل رکعۃ، وعند افتتاح السورۃ أیضا، وفي الفتاوی الغیاثیۃ: وہو المختار۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث في کیفیۃ الصلاۃ، زکریا ۲/ ۱۶۶، رقم: ۲۰۳۵) 

ویقرأ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ویسر بہا … ثم عن أبي حنیفۃ أنہ لا یأتي بہا في أول کل رکعۃ کالتعوذ وعنہ أنہ یأتي بہا احتیاطاً، وہو قولہما، وقال ابن الہمام: ومقتضی ہٰذا سنیتہا مع السورۃ۔ (ہدایۃ مع الفتح ۱؍۲۹۱-۲۹۳ بیروت، فتح القدیر ۱؍۲۹۱)

وسمّی سرا في أول کل رکعۃ (درمختار) وفي الشامیۃ: وذکر في المصفّٰی: أن الفتویٰ علی قول أبي یوسف أنہ یسمی في أول کل رکعۃ ویخفیہا۔ وذکر في المحیط: المختار قول محمد وہو أن یسمي قبل الفاتحۃ وقبل کل سورۃ في کل رکعۃ۔ (شامي ۲؍۱۹۲ زکریا، البحر الرائق ۱؍۳۰۳ کوئٹہ، حلبی کبیر / صفۃ الصلاۃ ۳۰۸)

وتسن التسمیۃ أول کل رکعۃ۔(حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ فصل في سننہا، دارالکتاب دیوبند جدید ۲۶۰، شامي، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ زکریا۲/۱۹۲، کراچي ۱/۴۸۹/بحوالہ کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ربیع الآخر 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں