سوال :
محترم مفتی صاحب! پیچھے ہاتھ باندھ کر چلنے کے بارے میں شرعی حکم اور اسکے بارے میں لوگوں کےخیالات کی کیا حقیقت ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے اعمال نامے ان کے داہنے میں پہنچیں گے وہ نجات یافتہ ہوں گے اور جن لوگوں کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں پیچھے کی طرف سے دئیے جائیں گے وہ اہلِ عذاب ہوں گے۔
نیز اس کی تشریح میں یہ بات ملتی ہے کہ اہل عذاب کے ہاتھوں میں ان کے اعمالناموں کے پہنچنے کی صورت یہ ہوگی کہ بائیں ہاتھ کو بغل کے نیچے سے نکال کر پشت کی طرف لے جایا جائے گا اور پھر پشت کی طرف سے ہاتھوں میں اعمال نامے دیدیئے جائیں گے۔
علامہ بیہقی رحمہ اللہ نے مجاہد رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ اس کا بایاں ہاتھ پشت کے پیچھے کردیا جائیگا اور اعمالنامہ کو وہ بائیں ہاتھ سے لے گا۔ ابن السابت نے کہا : اس کا بایاں ہاتھ مروڑ کر سینہ کے اندر سے پشت کے پیچھے نکال دیا جائے گا۔ (مظہری)
درج بالا تفصیلات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عموماً جس ہیئت پر بعض لوگ کمر پر ہاتھ رکھ کر چلتے ہیں، نامہ اعمال ملنے کی وہ کیفیت نہیں ہوگی، لہٰذا یہ ہیئت نا مناسب تو ہوسکتی ہے وہ بھی اس وجہ سے کہ آج کل مجرموں کو اسی ہیئت پر گرفتار کرکے لایا جاتا ہے۔ لیکن شرعاً ممانعت اور گناہ ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
البتہ ابوداؤد شریف کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں کی ہیئت پر بیٹھنے کو منع فرمایا ہے، لیکن یہ ہیئت بھی تھوڑی مختلف ہے اور بیٹھنے کو چلنے پر قیاس کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔
حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں :
حضرت عمر بن شرید تابعی اپنے والد ماجد (حضرت شرید ثقفی ؓ صحابی) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ایک دن آنحضرت ﷺ میرے پاس سے گزرے جب کہ میں اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ میرا بایاں ہاتھ تو میری پیٹھ کے پیچھے تھا اور انگوٹھے کی جڑ کے گوشت پر میں سہارا دیا ہوئے تھا آپ نے مجھ کو اس طرح بیٹھا ہوا دیکھ کر فرمایا کہ کیا تم اس ہیئت پر بیٹھے ہوئے جس ہیئت پر وہ لوگ بیٹھتے ہیں جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔
قال اللہ تعالی : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ۔ (سورہ انشقاق، آیت : ١٠)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ أَنَّ إِسْمَعِيلَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا ذَکَرَتْ النَّارَ فَبَکَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يُبْکِيکِ قَالَتْ ذَکَرْتُ النَّارَ فَبَکَيْتُ فَهَلْ تَذْکُرُونَ أَهْلِيکُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا فِي ثَلَاثَةِ مَوَاطِنَ فَلَا يَذْکُرُ أَحَدٌ أَحَدًا عِنْدَ الْمِيزَانِ حَتَّی يَعْلَمَ أَيَخِفُّ مِيزَانُهُ أَوْ يَثْقُلُ وَعِنْدَ الْکِتَابِ حِينَ يُقَالُ هَاؤُمُ اقْرَئُوا کِتَابِيَهْ حَتَّی يَعْلَمَ أَيْنَ يَقَعُ کِتَابُهُ أَفِي يَمِينِهِ أَمْ فِي شِمَالِهِ أَمْ مِنْ وَرَائِ ظَهْرِهِ وَعِنْدَ الصِّرَاطِ إِذَا وُضِعَ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ قَالَ يَعْقُوبُ عَنْ يُونُسَ وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِهِ ۔ (سنن ابوداؤد، رقم : ٤٧٥٥)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ ، عَنْ أَبِيهِ الشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ قَالَ : مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا جَالِسٌ هَكَذَا، وَقَدْ وَضَعْتُ يَدِي الْيُسْرَى خَلْفَ ظَهْرِي، وَاتَّكَأْتُ عَلَى أَلْيَةِ يَدِي، فَقَالَ : أَتَقْعُدُ قِعْدَةَ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ؟ (سنن ابوداؤد، رقم : ٤٨٤٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الآخر 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں