*عیسوی نئے سال کی مبارکباد دینے کا حکم*
سوال :
مفتى صاحب چونکہ عیسوی نئے سال کی آمد ہے لوگ نئے سال کی ایک دوسرے کو مبارکبادی دیتے ہیں اور کچھ لوگ ایڈوانس میں بھی مبارکبادی دیتے ہیں، اس کے بارے میں شریعت کیا فرماتی ہے؟
رہنمائی فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمود آئی ٹی، مالیگاؤں)
-------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : غیر قوموں کے مذہبی طور طریقوں کو اختیار کرنا یا ان کےخصوصی شعار کو اپنانا حرام ہے۔ اور ان کے دیگر رسوم وعادات کو اپنانا مکروہ ہے، جن میں Birthday اور Happy new year وغیرہ شامل ہیں۔
عیسوی نئے سال کی مبارکباد دینا مسلمانوں کا طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ مغربی قوموں سے متأثر ہونے کا نتیجہ ہے، جو کہ شرعاً مکروہ و ممنوع ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ اس فعل سے باز رہیں، ورنہ ایسا شخص حدیث شریف میں مذکور وعید (جو جس قوم کی نقالی کرے گا بروز حشر اس کا انجام بھی انہیں کے ساتھ ہوگا) کا مصداق ہوگا۔
عن ابن عمر قال قال رسول اﷲﷺ من تشبہ بقوم فھو منھم۔ (سنن ابی داؤد : ۲۰۳/۲)
عن ابی موسی قال المرأ مع من احب۔ (صحیح ابن حبان : ۲۷۵/۱)فقط
واللہ تعالیٰ اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ربیع الاول 1440
Napaki ka masla
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جواب دیںحذف کریںحضرت مفتی صاحب
ہجری سال کی مبارک باد دی جاسکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
حذف کریںاس پر بھی ہمارا جواب لکھا ہوا ہے۔ سرچ باکس میں لکھی ہجری سال یا پھر اس واٹس اپ نمبر 9270121798 پر رابطہ فرمائیں۔