*پانی کی تجارت کا شرعی حکم*
سوال :
مفتی صاحب ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے۔
ہمارے ایک دوست نے پوچھا ہے وہ پانی کا پلانٹ یعنی پانی کے جار، اسکا کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو پوچھنا یہ ہے کہ کیا پانی بیچ سکتے ہیں ؟ تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : مولانا اشفاق، پونے)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی شخص کا اپنی ملکیت کے سرکاری نل، بورنگ، کنویں وغیرہ کے پانی کو بوتل یا جار وغیرہ میں بھر کر یا مشین کے ذریعہ فلٹر کرکے بیچنا جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
البتہ ایسا پانی جو کسی شخص نے برتن وغیرہ میں جمع نہ کیا ہو، بلکہ وہ قدرتی طور پر بہہ رہا ہو، جیسے دریا یا چشمہ کا بہتا ہوا پانی اس کا فروخت کرنا ممنوع ہے، کیونکہ اس صورت میں وہ پانی فروخت کرنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے بلکہ اس میں تمام مسلمان شریک ہیں۔
عن أبي بکر بن عبداﷲ بن مریم عن المشیخۃ أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نہی عن بیع الماء إلا ما حمل منہ، وقال: وعلی ہذا مضت العادۃ في الأمصار ببیع الماء في الروایا والحطب والکلاء من غیر نکیر۔ (إعلاء السنن، باب بیع الماء والکلاء، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۱۴/ ۱۶۶)
فإذا أخذہ وجعلہ في جرۃ، أو ما شبہہا من الأوعیۃ فقد أحرزہ، فصار أحق بہ، فیجوز بیعہ، فالتصرف فیہ … لا یجوز بیع الماء في بئرہ ونہرہ ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۳/۱۲۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ربیع الآخر 1440
بغرض افادہ آپ حضرات احادیث شریفہ کا اردو ترجمہ بھی لکھا کریں۔ ورنہ عربی عام مسلمانوں کو کہاں سمجھ آتی ہے؟؟؟
جواب دیںحذف کریں