*تیمم کب جائز ہے؟ اور اس کا طریقہ*
سوال :
مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ تیمم کن کن حالتوں میں کرسکتے ہیں جیسے کتنی دور تک پانی نہ ملے تو تیمم کرسکتے ہیں؟
اسی طرح سے تیمم کا مکمل طریقہ بھی بتادیں ۔
اور ایک سوال کہ تیمم کرتے وقت بال برابر جگہ اگر چہرے اور ہاتھ پر تیمم کرتے وقت ہاتھ نہ پھرے تو کیا تیمم ہوجائیگا؟
(المستفتی : عبدالرحمن بھائی، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تیمم کی اجازت صرف اس صورت میں ہے کہ جب پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو، اور پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں ۔
ایک یہ کہ پانی میسر ہی نہ ہو، یہ صورت عموماً سفر میں پیش آسکتی ہے، پس اگر پانی ایک میل (ایک میل شرعی کی مقدار ۲؍ ہزار گز یعنی ایک کلو میٹر ۸۲۸ میٹر ۸۰ سینٹی میٹر ہے) دُور ہو، یا کنواں تو ہے مگر کنویں سے پانی نکالنے کی کوئی صورت نہیں، یا پانی پر کوئی درندہ بیٹھا ہے، یا پانی پر دُشمن کا قبضہ ہے اور اس کے خوف کی وجہ سے پانی تک پہنچنا ممکن نہیں، تو ان تمام صورتوں میں اس شخص کو گویا پانی میسر نہیں اور وہ تیمم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ پانی تو موجود ہے مگر وہ بیمار ہے اور وضو یا غسل سے جان کی ہلاکت کا یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا یا بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہے، یا خود وضو یا غسل کرنے سے معذور ہے اور کوئی دُوسرا آدمی وضو اور غسل کرانے والا موجود نہیں، تو ایسا شخص تیمم کرسکتا ہے ۔
تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ اول نیت کرے کہ میں ناپاکی دور کرنے اورنماز پڑھنے کے لیے تیمم کرتا ہوں، اس کے بعد دونوں ہتھیلیاں پاک مٹی پر مار کر انھیں جھاڑ دے زیادہ مٹی لگ جائے تو منھ سے پھونک دے اس کے بعد انہیں پورے چہرے پر پھیر لے، پھر دوسری مرتبہ ہتھیلیاں مٹی پر مارے اور انھیں جھاڑ کر کہنیوں تک دونوں ہاتھوں پر پھیرلے، اگر انگلیوں میں انگوٹھی پہنی ہوتو اسے اتار لے یا آگے پیچھے کردے ۔ مرد داڑھی کا خلال بھی کرے ۔
اگرچہ فقہ و فتاوی کی عام کتابوں میں لکھا ہے کہ تیمم میں وضو اور غسل کی طرح ایک بال برابر جگہ چھوٹ جائے تو تیمم نہیں ہوگا لیکن زیادہ صحیح اور ظاہر روایت بھی یہ ہے کہ تیمم ہوجائے گا، چنانچہ موجودہ دور کے مشہور محقق مفتی شکیل منصور قاسمی دامت فیوضھم لکھتے ہیں :
تیمم کا مدار یسر و سہولت پہ ہے، اور یسر و سہولت کا تقاضہ ہے کہ (مذکورہ) التزام نہ ہو، اگر استیعاب جمیع اجزاء شرط قرار دے دی جائے تو اس میں کتنی دقّت ہوگی؟
ظاہر روایہ میں "استیعاب المحل (الوجہ والیدان) بالمسح کو رکن تیمم قرار دیا گیا ہے ۔
جبکہ حسن بن زیاد کی روایت یہ ہے کہ اکثر وجہ اور یدین پہ مسح کرلینا بھی کافی ہے، مراقی الفلاح میں اس قول کی تصحیح کی گئی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ تیمم میں چہرے اور ہاتھوں کے اکثر حصے پر مسح ہوجائے تو تیمم کے لئے کافی ہوجائے گا ۔
عن ابن عمر عن النبی ۖ قال التیمم ضربتان صربة للوجہ و ضربة للیدین الی المرفقین (دار قطنی ج اول ص ١٨٨ نمبر ٦٧٤ سنن للبیھقی ، باب کیف التیمم ، ج اول ،ص ٣٢٩ نمبر ٩٩٩)
لو ترك أقل من الربع يجزئه ۔ والوجه فيه رفع الحرج أو أنه مسح . والاستيعاب في المسح ليس بشرط كمسح الخف والرأس ۔ (حاشية الطحطاوي على المراقي 120)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ربیع الاول 1440
جزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریں