پیر، 3 دسمبر، 2018

مدینہ منورہ کو یثرب کہنا

*مدینہ منورہ کو یثرب کہنا*

سوال :

مفتی صاحب مدینہ منورہ کو یثرب بولنا کیسا ہے؟ کیا یثرب بولنے سے بندہ گناہ گار ہوگا؟ تفصیل سے رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عارف محمد حنیف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جاہلیت کے زمانے میں "مدینہ منورہ " کا نام یثرب تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے ہجرت فرما کر یہاں تشریف لائے تو اس کا نام مدینہ، طابہ اور طیبہ (خوش اور پاک) رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مقدس شہر کو یثرب کہنے سے منع فرمایا دیا تھا، کیونکہ یثرب کے معنی فتنہ و فساد کے ہوتے ہیں۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بعض احادیث میں اس شہر کے لئے اس کا قدیم نام یثرب استعمال فرمایا ہے، اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے یہ احادیث ممانعت سے پہلے کی ہیں، یا یہ ممانعت چونکہ نہی تنزیہی کے طور پر ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان جواز کے لئےکبھی کبھی قدیم نام بھی استعمال فرما لیتے تھے۔ یا پھر ابتداء ہجرت میں چونکہ عام طور پر لوگ اس نئے نام مدینہ سے اتنے واقف نہیں تھے، اس لیے اس کے ساتھ یثرب کا بھی ذکر فرما دیا۔ علاوہ ازیں قرآن کریم میں جو فرمایا گیا ہے کہ آیت : يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ الخ یہ تو یہ منافقین کی زبانی فرمایا گیا ہے لہٰذا اس کے متعلق کوئی اشکال نہیں ہونا چاہئے۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ کو یثرب کہنا ممنوع یعنی مکروہ تنزیہی ہے جس بچنا چاہیے، البتہ اگر کوئی معنی و مفہوم کے استحضار کے ساتھ یثرب کہے تو اس کے بدبخت اور سخت گناہ گار ہونے میں کوئی شک نہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاکٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَی سَمَّی الْمَدِينَةَ طَابَةَ ۔ (صحیح مسلم، رقم : ١٣٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ربیع الاول 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں