*نمازِ جنازہ میں تکبیریں فوت ہوجائے تو کیا کرے؟*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ اگر نماز جنازہ میں شروع کی تکبیریں چھوٹ جائیں تو جماعت میں کیسے شامل ہوں گے؟
(المستفتی : ڈاکٹر فضل الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص جنازہ کی نماز میں بعد میں آئے تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ امام کی اگلی تکبیر کا انتظار کرے، (لیکن اگر مسبوق آتے ہی امام کی تکبیر کا انتظار کئے بغیر نماز میں شریک ہوجائے تو یہ شرکت بھی معتبر ہے، لیکن چونکہ نماز جنازہ کی ہر تکبیر ایک رکعت کے قائم مقام ہے اس لئے اس تکبیر کا کچھ اعتبار نہ ہوگا؛ بلکہ اس تکبیر کو بھی امام کے سلام کے بعد دوبار کہنا ہوگا۔) جب امام تکبیر کہے تو اس کے ساتھ یہ شخص بھی تکبیر کہتا ہوا شامل ہوجائے، پھر اگر اسے معلوم ہے کہ یہ کونسی تکبیر ہے، تو امام کی موافقت کرتے ہوئے اس تکبیر کے بعد والی دعا پڑھے، اور اگر یہ معلوم نہیں کہ یہ دوسری تکبیر ہے یا تیسری، تو پھر ترتیب وار اپنی پہلی تکبیر کے بعد ثناء، پھر دوسری تکبیر کے بعد درود شریف، اور تیسری تکبیر کے بعد دُعا پڑھے، اور اگر ایک یا دو تکبیر کے بعد ہی امام نے سلام پھیر دیا، اور چُھوٹی ہوئی تکبیریں دعاؤں کے ساتھ ادا کرنے کا موقع نہیں ہے، یعنی جنازہ اٹھا لیے جانے کا اندیشہ ہوتو دعا وغیرہ کے بغیر صرف چُھوٹی ہوئی تکبیریں کہہ کر سلام پھیردے۔
والمسبوق ببعض التکبیرات لا یکبر فی الحال؛ بل ینتظر تکبیر الإمام لیکبر معہ للافتتاح۔ (درمختار) وفی الشامی : ویکون ہذا التکبیر تکبیر الافتتاح فی حق ہذا الرجل فیصیر مسبوقاً بتکبیرۃ یأتی بہا بعد سلام الإمام۔ (شامی زکریا ۳؍۱۱۴)
فلو کبر کما حضر ولم ینتظر لا تفسد عندہما لکن ما أداہ غیر معتبر۔ (وبعد اسطر) یصح شروعہ بہا ویعیدہا بعد سلام إمامہ۔ (شامی زکریا ۳؍۱۱۴)
ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : والمسبوق ببعض التکبیرات لا یکبر في الحال بل ینتظر تکبیر الإمام لیکبر معہ للافتتاح، لما مر أن کل تکبیرۃ کرکعۃ ۔ تنویر وشرحہ ۔ وفي الشامیۃ : قال الشامي رحمہ اللہ تعالی : وفي نور الإیضاح وشرحہ أن المسبوق یوافق في دعائہ لو علمہ بسماعہ ، ولم یذکر ما إذا لم یعلم ، وظاہر تقییدہ الموافقۃ بالعلم أنہ إذا لم یعلم بأن لم یعلم أنہ في التکبیرۃ الثانیۃ أو الثالثۃ مثلا یأتي بہ مرتبا : أي یأتي بالثناء ثم الصلاۃ ثم الدعاء ۔
(۳/۱۱۴- ۱۱۶، باب صلاۃ الجنازۃ ، مطلب ہل یسقط فرض الکفایۃ بفعل الصبي)
فإذا انتہی إلی الإمام في صلاۃ الجنازۃ وقد سبقہ بتکبیرۃ لا یکبر ولکنہ ینتظر الإمام حتی یکبر فیکبر معہ ، وإذا سلم الإمام قضی ہذا الرجل ما فاتہ قبل أن ترفع الجنازۃ، وہذا مذہب أبي حنیفۃ ومحمد ۔ (۱/۶۵۰، الفصل الثاني والثلاثون في الجنائز ، القسم الثاني في کیفیۃ الصلاۃ علی المیت ، ومما یتصل بہذا القسم، الفتاوی التاتارخانیۃ)
مستفاد: کتاب المسائل، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، رقم الفتویٰ: ۳۹۰۳۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ربیع الآخر 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں