موزوں پر مسح کرنے کے احکامات
مرتب : محمد عامر عثمانی ملی
قارئین کرام ! سردی کے موسم میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ موزوں کا استعمال کرتا ہے، ان میں سے بعض چمڑے کے موزے ہوتے ہیں جنہیں خفین کہا جاتا ہے، اور بعض سوتی یا اون وغیرہ کے، جنہیں جوربین کہتے ہیں، ان موزوں پر وضو کے وقت مسح سے متعلق تفصیلات ہیں، چنانچہ پیش نظر مضمون میں موزوں پر مسح سے متعلق تقریباً تمام اہم مسائل کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لہٰذا جو لوگ ان موزوں کا استعمال کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ ان مسائل سے واقفیت حاصل کریں، اور شریعت مطہرہ میں دی گئی سہولت سے استفادہ کریں۔
مسح علی الخفین کی مشروعیت
قرآنِ پاک میں آیتِ وضو {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ} سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وضو میں پیروں کا دھونا ضروری ہے، لیکن صحیح احادیث سے شہرت کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرائط کے ساتھ خفین پر مسح کرنے کی نہ صرف اجازت دی، بلکہ خود عمل بھی فرمایا۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سفر کے دوران وضو فرمایا اور میں آپ پر پانی ڈال رہا تھا، آپ نے ایسا شامی جبہ زیب تن فرمارکھا تھا جس کی آستینیں تنگ تھیں، جس کی بنا پر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دامن کے نیچے سے باہر نکالے اور آپ نے خفین پر مسح فرمایا، تو میں نے عرض کیا کہ کیا آپ پیر دھونا بھول گئے؟ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرمایا : بلکہ تم ہی بھول گئے، مجھے میرے رب نے اسی (خفین پر مسح کرنے کا) حکم دیا ہے۔ (بخاری شریف حدیث: ۱۹۶، مسلم شریف حدیث: ۴۰۶، المحیط البرہانی ۱؍۳۳۹)
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے وہ فرماتے تھے کہ میں نے ۷۰؍ ایسے صحابہ سے ملاقات کی ہے جو سب کے سب مسح علی الخفین کو جائز قرار دیتے تھے۔ (ـالمحیط البرہانی ۱؍۳۳۹، حلبی کبیر ۱۰۴)
صرف شیعہ فرقۂ امامیہ کے لوگ مسح علی الخفین کو نہیں مانتے، بلکہ وہ بلاخفین پیروں پر مسح کے قائل ہیں، اس کے برخلاف اہلِ سنت والجماعت موزے نہ ہونے کی حالت میں پیروں کو دھونا ضروری قرار دیتے ہیں، اور موزوں کی حالت میں مسح کے قائل ہیں ۔ (نووی علی مسلم فی شرح حدیث: ۲۴۱، تحفۃ الالمعی ۱؍۳۵۸) اسی وجہ سے مسح علی الخفین کو اہل سنت والجماعت کی امتیازی شان بھی کہا گیا ہے۔
امام کرخیؒ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص خفین پر مسح کا قائل نہ ہو اس پر کفر کا اندیشہ ہے۔ (المحیط البرہانی ۱؍۳۳۹) اس لئے کہ مسح کے جواز کی روایات شہرت وتواتر کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہیں جن کا انکار موجبِ کفر ہے۔
موزوں پر مسح صحیح ہونے کی شرائط
خفین (چمڑے کے موزوں) پر مسح صحیح ہونے کی دس شرطیں ہیں :
1) ٹخنوں سمیت وہ پورے قدم کو چھپالیں۔
2) وہ قدم کی ہیئت پر بنے ہوئے اور پیر سے ملے ہوئے ہوں۔
3) وہ اتنے مضبوط ہوں جنہیں پہن کر جوتے کے بغیر ایک فرسخ (تین میل شرعی جس کی مسافت ۵؍کلومیٹر ۴۸۶؍ میٹر ۴۰؍سینٹی میٹرہوتی ہے۔ مستفاد: ایضاح المسائل ۷۰) پیدل چلا جاسکتا ہو۔
4) وہ پیروں پر بغیر باندھے رک سکیں۔
5) اتنے دبیز ہوں کہ پانی کو پیروں تک نہ پہنچنے دیں۔
6) ان میں سے کسی موزہ میں اتنی پھٹن نہ ہو جو مسح سے مانع ہو۔
مطلب خفین اگر تین چھوٹی انگلیوں یا اس سے زائد کے بقدر پھٹ جائیں تو ان پر مسح جائز نہیں ہے، اور اگر تین انگلیوں کی مقدار سے کم پھٹا ہو تو اس پر مسح درست ہے۔
اگر ایک ہی موزہ کئی جگہ سے تھوڑا تھوڑا پھٹا ہو اور وہ پھٹن پیر کی چھوٹی تین انگلیوں کے بقدر پہنچ جائے تو مسح کرنا درست نہ ہوگا۔
والکثیر أن ینکشف قدر ثلاث أصابع الرجل أصغرہا ہو الصحیح۔ (ہدایہ ۱؍۵۸)
والحد الفاصل بین القلیل والکثیر وقدر ثلاث أصابع، فإن کان الخرق قدر ثلاث أصابع منع وإلا فلا۔ (بدائع الصنائع زکریا ۱؍۹۶)
وتجمع الخروق فی خف واحد لا فیہما۔ (درمختار بیروت ۱؍۴۰۰، زکریا ۱؍۴۶۰، المحیط البرہانی ۱؍۳۴۸)
7) طہارتِ کاملہ یعنی پاکی کی حالت میں باوضو پہنا جائے۔
8) وہ طہارت تیمم سے حاصل نہ کی گئی ہو۔
9) مسح کرنے والا جنبی نہ ہو۔
10) اگر پیر کٹا ہوا شخص مسح کرنا چاہے تو یہ شرط ہے کہ کم از کم ہاتھ کی تین چھوٹی انگلیوں کے بقدر اس کے قدم کا اوپری حصہ باقی ہو۔
ویشترط لجواز المسح علی الخفین سبعۃ شرائط الخ۔ (مراقی الفلاح ۶۹)
قلت: ویزاد کون الطہارۃ المذکورۃ غیر التیمم وکون الماسح غیر جنب (شامی بیروت ۱؍۳۸۵، زکریا ۱؍۴۳۷)
والثانی کونہ مشغولاً بالرجل لیمنع سرایۃ الحدث۔ (درمختار بیروت ۱؍۳۸۷، زکریا ۱؍۴۳۹)
سوتی یا اون وغیرہ کے موزوں پر مسح کا حکم
چمڑے کے علاوہ دیگر موزوں پر مسح جائز ہونے میں درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔
چمڑے کے علاوہ دیگر چیزوں کے موزے مثلاً سوتی یا اونی موزے اتنے دبیز اور موٹے ہوں کہ انہیں پہن کر تین میل (تین میل شرعی جس کی مسافت ۵؍کلومیٹر ۴۸۶؍ میٹر ۴۰؍سینٹی میٹرہوتی ہے ۔ مستفاد: ایضاح المسائل ۷۰) چلا جاسکے۔ اور ان میں پانی نہ چھن سکے اور بلا کسی ذریعہ (لاسٹک وغیرہ) کے پنڈلی پر ٹک سکیں، نیز انہیں پہن کر پیر کا اندرونی حصہ باہر سے نظر نہ آئے، خفین کی شرائط میں چھٹی شرط کے بعد سے جو شرائط ہیں وہ اس میں بھی ملحوظ رکھی جائیں گی۔
آج کل استعمال ہونے والے نائیلون اور سوتی واونی موزوں پرمسح جائز نہیں ہے، اس لئے کہ ان میں جواز کی شرائط نہیں پائی جاتیں، لہٰذا وضو کے وقت ان کو اتار کر پیروں کو دھونا لازم ہے۔
منہا ما یکون من غزل وصوفٍ، ومنہا ما یکون من غزل الخ۔ فالأول لا یجوز المسح علیہ عندہم جمیعاً، وأما الثانی فإن کان رقیقاً لا یجوز المسح علیہ بلا خلافٍ۔ (المحیط البرہانی ۱؍۳۴۴)
أو جوربیہ ولو من غزل أوشعر الثخینین بحیث یمشی فرسخاً ویثبت علی الساق بنفسہ ولا یُرٰی ما تحتہ ولا یشف إلاَّ أن ینفذ إلی الخف۔ (درمختار بیروت ۱؍۳۹۴-۳۹۵، زکریا ۱؍۴۵۱-۴۵۲)
مسح کرنے کا طریقہ
خفین پر مسح کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں تر ہاتھوں کی انگلیاں کھول کر دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے دائیں پیر کے موزے پر اور بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے بائیں موزے کے اگلے ظاہری حصہ سے اوپر پنڈلیوں کی طرف خط کھینچ دیا جائے، اور اگر انگلیوں کے ساتھ ہتھیلی بھی شامل کرلے توبہتر ہے۔
اگر اس کے خلاف مسح کیا مثلاً پنڈلی سے انگلیوں تک خط کھینچا یا پیر کی چوڑائی میں مسح کیا تو مسح تو ہوجائے گا، لیکن خلافِ سنت ہوگا۔
خفین میں نیچے تلوے کی طرف یا صرف ایڑیوں کی طرف مسح کیا جائے تو اس مسح کا کوئی اعتبار نہیں۔
قال المرغینانی : والمسحُ علی ظاہرہما خطوطاً بالأصابع، یبدأ من قبل الأصابع الی الساق لحدیث المغیرة رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضع یدیہ علی خفیہ، و مدّہما من الأصابع الی أعلاہما مسحةً واحدةً۔ ۔۔۔ قال ابن الہمام: قولہ : (یبدأ من قبل الأصابع الخ) صورتُہ أن یضع أصابعَ الیمنی علی مقدم خفہ الأیمن وأصابعَ الیسری علی مقدم الأیسر، ویمدّہما الی الساق فوقَ الکعبین، ویفرج أصابعہ، ہذا ہو الوجہ المسنون۔۔۔۔۔ (الہدایة مع فتح القدیر: ۱/۱۳۲، ط: دار احیاء التراث العربي، بیرت)
والسنۃ أن یخط خطوطاً بأصابع یدٍ مفرّجۃٍ قلیلاً یبدأ من قبل أصابع رجلہ متوجہاً إلی أصل الساق الخ ۔(درمختار) وإن وضع الکفین مع الأصابع کان أحسن۔ (شامی بیروت ۱؍۳۹۲، زکریا ۱؍۴۴۸، ہندیہ ۱؍۳۳)
ولو وضع یدیہ من قبل الساق ومدہما إلی رؤس الأصابع جاز لحصول الفرض، وکذا لو مسح علیہما عرضاً جاز أیضاً الخ۔ (حلبی کبیر ۱۰۹-۱۱۰)
ولو مسح علی باطن خفیہ أو من قبل العقبین أو من جوانبہما أی جوانب الرجلین لا یجوز مسحہ۔ (حلبی کبیر ۱۱۰)
مسح کی مدت اور اس کی ابتدا کب سے؟
مقیم کے لئے ایک دن رات (24؍ گھنٹے) اور مسافر کے لئے تین دن اور تین رات (72؍ گھنٹے) تک خفین پر مسح کی اجازت ہے، اور اس مدت کی ابتدا پہننے کے وقت سے نہیں ہوگی، بلکہ پہلی مرتبہ حدث لاحق ہونے کے وقت سے ہوگی۔ مثلاً کسی شخص نے آٹھ بجے کامل طہارت یعنی باوضو موزہ پہنا اس کے بعد گیارہ بجے اس کو پہلی مرتبہ حدث لاحق ہوا، اور اس کا وضو ٹوٹا تو اس کی مدت کی ابتدا گیارہ بجے سے ہوگی۔
یوماً ولیلۃً لمقیم، وثلاثۃ أیام ولیالیہا لمسافر، وابتداء المدۃ من وقت الحدث۔ (درمختار بیروت ۱؍۳۹۷، زکریا ۱؍۴۵۶، ہندیہ ۱؍۳۳)
وابتداء المدۃ یعتبر من وقت الحدث عند علمائنا رحمہم اللّٰہ تعالیٰ۔ (المحیط البرہانی ۱؍۳۵۱)
حدثِ اول سے قبل خفین اتار دینا
بحالتِ طہارت خفین پہننے کے بعد ابھی کوئی حدث پیش نہیں آیا تھا کہ خفین اتار دیئے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹا، کیونکہ ابھی مسح کی مدت شروع ہی نہیں ہوئی ہے۔
واعلم بأن خلع الخفین قبل انتقاض الطہارۃ التي لبس بہا الخفین لا یضرہ وإن تکرر؛ لأن الطہارۃ قائمۃ، وخلع الخفین لیس بحدث۔ (حاشیہ چلپی علی تبیین الحقائق قدیم ۱؍۵۰، البحر الرائق زکریا ۱؍۲۹۷)
مدتِ مسح ختم ہونے پر کیا کرے؟
جس شخص کے مسح کی مدت ختم ہوجائے اور وہ باوضو ہو تو اس کے لئے یہ کافی ہے کہ موزے اتارکر صرف پیر دھولے، بقیہ وضو دہرانا اس پر لازم نہیں۔
قال فی الأصل: إذا انقضیٰ وقت المسح ولم یحدث فی تلک الساعۃ فعلیہ نزع خفیہ وغسل رجلیہ ولیس علیہ إعادۃ بقیۃ الوضوء۔ (المحیط البرہانی ۱؍۳۵۲)
مسح کرنے والا مقیم مسافر ہوجائے
اگر مسح کرنے والا مقیم 24؍گھنٹے پورا ہونے سے پہلے مسافر شرعی ہوجائے، تو اس کے لئے 72؍گھنٹے تک مسح کرنے کی اجازت ہوگی۔
مقیم سافر فی مدۃ الإقامۃ یستکمل مدۃ السفر۔ (ہندیہ ۱؍۳۳، درمختار بیروت ۱؍۴۰۵، زکریا ۱؍۴۶۶، المحیط البرہانی ۱؍۳۵۲)
مسح کرنے والا مسافر مقیم ہوجائے
اگر حالتِ سفر میں مسح شروع کیا اور ۲۴؍گھنٹے سے پہلے مقیم ہوگیا تو 24؍گھنٹے پورے ہونے تک مسح کی گنجائش ہوگی، اور اگر 24؍ گھنٹے پورے ہونے کے بعد مقیم ہوا ہے، تو اب حالتِ اقامت میں اس کے لئے آگے مسح کرنا جائز نہ ہوگا؛ بلکہ موزے اتارکر پیر دھونے ضروری ہوں گے۔
والمسافر إذا أقام بعد ما استکمل مدۃ الإقامۃ ینزع خفیہ ویغسل رجلیہ، وإن أقام قبل استکمال مدۃ الإقامۃ یتم مدتہا کذا فی الخلاصۃ۔ (ہندیہ ۱؍۳۴، شامی بیروت ۱؍۴۰۵، زکریا ۱؍۴۶۸، المحیط البرہانی ۱؍۳۵۲)
مسح کو توڑنے والی چیزیں
درج ذیل صورتوں میں مسح علی الخفین ٹوٹ جائے گا :
1) نواقض وضو (بول وبراز وغیرہ) اس صورت میں نیا وضو کرتے وقت دوبارہ مسح کرنا ہوگا، اور آگے کی صورتوں میں موزہ اتار کر پیر دھونا ضروری ہے صرف مسح کافی نہیں۔
2) پورے موزہ کا اتار دینا یا پیر کا اکثر حصہ باہر آجانا۔
3) مسح کی مقررہ مدت کا گذرجانا۔
4) موزہ پہنے ہوئے کسی ایک پیر کے اکثر حصہ تک موزہ کے اندر ہی پانی پہنچ جانا۔
5) پیر کی تین چھوٹی انگلیوں کے بقدر موزہ کا پھٹ جانا۔
وناقضہ ناقض الوضوء الخ، ونزع خف ولو واحداً ومضیّ المدۃ الخ، وخروج أکثر قدمیہ من الخف الشرعی وکذا إخراجہ نزع فی الأصح الخ، وینتقض أیضاً بغسل أکثر الرجل فیہ لو دخل الماء خفہ، وصححہ غیر واحد الخ۔ (درمختار بیروت ۱؍۴۰۱-۴۰۴، زکریا ۱؍۴۶۲-۴۶۵)
والخرق الکبیر وہو قدر ثلاث أصابع القدم الأصاغر یمنعہ۔ (تنویر الابصار مع الدر بیروت ۱؍۳۹۹، زکریا ۱؍۴۵۹)
(مستفاد : کتاب المسائل، جلد 1/صفحہ 196 تا 204)
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںبہت خوب
جواب دیںحذف کریںبروقت و برمحل
💐
ماشاء اللہ ، جزاک اللہ ، بوقت ضرورت۔۔۔
جواب دیںحذف کریں