ہفتہ، 15 دسمبر، 2018

وضو کے فرائض اور اس کا مسنون طریقہ

*وضو کے فرائض اور اس کا مسنون طریقہ*

سوال :

مفتى صاحب وضو کے فرائض اور طریقہ بیان فرما دیجئے، عین نوازش ہوگی ۔
(المستفتی : محمود آئی ٹی، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : وضو میں چار فرض ہیں : (۱) پورا چہرہ دھونا (۲) کہنیوں تک ہاتھ دھونا (۳) چوتھائی سرکا مسح کرنا (۴) ٹخنوں تک پیروں کا دھونا ۔

ذیل میں وضو کی متفق علیہ سنتیں ذکر کی جاتی ہیں جنہیں ادا کرلینے سے وضو کامل ادا ہوجائے گا :

(۱) نیت کرنا
نیت کا مطلب دل میں یہ ارادہ کرنا ہے کہ میں حکم خداوندی کی تعمیل یا طہارت کے حصول یا ان عبادات کے حلال ہونے کی غرض سے یہ عمل کررہا ہوں جن کی ادائیگی طہارت کے بغیر میرے لئے درست نہیں ہے، اور ان الفاظ کا زبان سے کہنا ضروری نہیں، بلکہ دل میں استحضار کافی ہے ۔

البدایۃ بالنیۃ أی نیۃ عبادۃ لا تصح إلا بالطہارۃ کوضوء أو رفع حدثٍ أو امتثال أمرٍ۔ (درمختار) ولا یخفی أن الأصوب أن یقول: أو وضوئٍ، بالعطف علی عبادۃٍ، وما ذکرہ من الاکتفاء بنیۃ الوضوء ہو ما جزم بہٖ فی الفتح وأیدہ فی البحر والنہر الخ۔ (شامی زکریا ۱؍۲۲۳، بیروت ۱؍۱۹۹-۲۰۰)

(۲) تسمیہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) پڑھنا
وضو کے شروع میں اللہ تعالیٰ کا نام لینا مطلقاً مسنون ہے اور بعض احادیثِ شریفہ میں اس موقع پر درج ذیل الفاظ کی فضیلت وارد ہے : ’’بسم اللّٰہ والحمد للّٰہ‘‘۔ اس لئے ان کلمات کا اہتمام کرنا بہتر ہے ۔

عن أبی ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ : ’’یا أبا ہریرۃَ إذا توضأت فقل ’’بسم اللّٰہ والحمد للّٰہ‘‘ فإن حفظتک لا تبرح تکتب لک الحسنات حتی تحدث من ذٰلک الوضوء‘‘۔ (طبرانی صغیر ۱؍۳۱ حدیث: ۱۹۶، اعلاء السنن بیروت ۱؍۴۳، شامی زکریا ۱؍۲۲۷، بیروت ۱؍۲۰۳)

اگر کوئی شخص وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو بہتر یہ ہے کہ جب یاد آئے تو ’’بسم اللّٰہ أولہٗ واٰخرہٗ‘‘ پڑھے۔

قال الشامی بحثاً: ویؤیدہ ما نقلہ العینی فی شرح الہدایۃ عن بعض العلماء: أنہ إذا سمیٰ فی أثناء الوضوء أجزأہٗ۔
(شامی زکریا ۱؍۲۲۸، بیروت ۱؍۲۰۵)

(۳) ابتداء میں تین مرتبہ گٹوں تک ہاتھ دھونا
اگر کسی بڑی بالٹی یا ڈرم وغیرہ میں پانی رکھا ہوا ہے اور وہ ڈرم اتنا بڑا ہے کہ اسے ہلایا نہیں جاسکتا اور کوئی ایسا برتن وغیرہ بھی نہیں ہے جس کے ذریعہ سے اس میں سے پانی نکالا جائے، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اولاً بائیں چلو سے پانی لے کر دائیں ہاتھ کو گٹے تک دھوئے، اس کے بعد دائیں چلو سے پانی لے کر بایاں ہاتھ دھوئے؛ تاکہ داہنے سے ابتداء کی سنت ادا ہوسکے ۔

قال فی النہر: ثم کیفیۃ ہٰذا الغسل أن الإناء إن أمکن رفعہ غسل الیمنیٰ ثم الیسریٰ ثلاثاً، وإن لم یمکن لٰکن معہ إناء صغیرٌ فکذٰلک، وإلا أدخل أصابع یدہ الیسریٰ مضمومۃً دون الکف وصب علی الیمنیٰ ثم یدخلہا ویغسل الیسریٰ۔ (شامی زکریا ۱؍۲۳۱، بیروت ۱؍۲۰۷)

(۴) مسواک کرنا

(۵) تین مرتبہ کلی کرنا

(۶) تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالنا

(۷) منہ اور ناک کی صفائی میں مبالغہ کرنا (یہ سنت روزہ دار کے لئے نہیں ہے)*

(۸) داڑھی میں خلال کرنا
داڑھی میں خلال کرنے کی مسنون صورت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو گلے کی طرف کرکے تر انگلیوں کو ٹھوڑی کے نیچے لے جاکر داڑھی کے درمیان سے اوپر کو نکال دیں ۔

قال الشامی : أقول لکن روی أبوداؤد (۱؍۱۹) عن أنس ص ’’کان ا إذا توضأ أخذ کفاً من ماء تحت حَنَکِہٖ فخلّل بہ لحیتہ وقال: بہٰذا أمرنی ربِّیْ‘‘۔ ذکرہ فی البحر وغیرہ۔ والمتبادر فیہ إدخال الیدین أسفل بحیث یکون کف الید لداخل من جہۃ العنق وظہرہا إلی خارج الخ، ثم اعلم أن ہذا التخلیل بالید الیمنی کما صرح بہ فی الحلیۃ۔ (شامی بیروت۱؍۲۱۴، زکریا ۱؍۲۳۸)

(۹) انگلیوں میں خلال کرنا
ہاتھ کی انگلیوں میں خلال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے ہاتھ کی پشت پر رکھ کر تر انگلیاں ایک دوسرے میں ڈال دی جائیں ۔ جب کہ پیروں میں خلال کرنے کے لئے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی استعمال کریں، اور بہتر ہے کہ دائیں پیر کی چھوٹی انگلی سے خلال کی ابتداء کرکے بائیں پیر کی چھوٹی انگلی پر ختم کریں ۔

وتخلیل (أصابع) الیدین بالتشبیک والرجلین بخنصر یدہ الیسری بادئاً بخنصر رجلہ الیمنیٰ (درمختار) وفی الشامی: وکیفیتہ کما قالہ الرحمتی: أنہ یجعل ظہراً لبطن لئلا یکون أشبہ باللعب ۔ (شامی بیروت ۱؍۲۱۴، زکریا ۱؍۲۳۹)

(۱۰) تمام اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھونا
اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھونا سنت ہے، بلاضرورت اس سے زائد مرتبہ نہیں دھونا چاہئے، لیکن اگر شک ہوجائے کہ کتنی مرتبہ دھویا ہے تو اطمینانِ قلب کے لئے زائد دھونے میں حرج نہیں ہے ۔

ویسن تثلیث الغسل فمن زاد أو نقص فقد تعدی وظلم کما ورد فی السنۃ إلا لضرورۃ (مراقی الفلاح) وفی الطحطاوی: بأن زاد لطمانینۃ قلبہ عند الشک فلا بأس بہ۔ (طحطاوی کراچی ۴۰، درمختار زکریا ۱؍۲۴۰، بیروت ۱؍۲۱۶)

(۱۱) پورے سرکا مسح کرنا
حنفیہ کے نزدیک اگرچہ مسح کا فرض چوتھائی سر پر مسح کرنے سے ادا ہوجاتا ہے، لیکن اہتمام کے ساتھ پورے سر کا ایک مرتبہ مسح کرنا سنت ہے، اور اگر کوئی شخص اس سنت کی ادائیگی میں بلاعذر لاپرواہی برتے تو گنہگار ہوگا، اور پورے سر پر مسح کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اپنی ہتھیلیاں اور انگلیاں پیشانی پر رکھ کر گدی تک لے جائیں اور پھر انگلیوں سے کانوں پر مسح کرلیں، اور بعض لوگوں نے جو یہ طریقہ لکھا ہے کہ مسح کرتے وقت انگلیوں اور ہتھیلیوں کو الگ رکھا جائے؛ تاکہ مستعمل پانی کہیں نہ لگے، تومحققین فقہاء کے نزدیک اس طریقہ کا التزام بے اصل ہے ۔

ومسح کل رأس مرۃً مستوعبۃً، فلو ترکہ وداوم علیہ أثم۔ (درمختار) قال الزیلعی: وتکلموا فی کیفیۃ المسح، والأظہر أن یضع کفیہ وأصابعہ علی مقدم رأسہٖ ویمدہما إلی القفا علی وجہٍ یستوعب جمیع الرأسِ ثم یمسح أذنیہ بأصبعیہ، وما قیل من أنہ یجافی المسبحتین والإبہامین لیمسح بہما الأذنین والکفین لیمسح بہما جانبی الرأس خشیۃ الاستعمال، فقال فی الفتح: لا أصل لہ فی السنۃِ، لأن الاستعمال لا یثبت قبل الانفصال، والأذنان من الرأس۔ (شامی زکریا ۱؍۲۴۳، بیروت ۱؍۲۱۸)

(۱۲) کانوں کا مسح کرنا
کانوں کا حکم سر کے تابع ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ جس پانی سے سر کامسح کیا جائے اسی سے کانوں پر مسح کی سنت ادا کی جائے، تاہم اگر کوئی شخص سر پر مسح کرنے کے بعد کانوں کے لئے الگ پانی لے تو بھی درست ہے ۔

قال الرافعی : الذی یظہر فی ہٰذہ المسئلۃ أن مسح الأذنین سنۃ وکونہ بماء الرأس سنۃ أخریٰ عندنا، فقول الخلاصۃ: لو أخذ للأذنین ماء اً جدیداً فہو حسن لا اشکال فیہ الخ۔ (رافعی علی الشامی زکریا ۱؍۱۸)

سر اور کانوں کے ساتھ گردن کا مسح بھی الٹے ہاتھوں سے مستحب ہے ۔

ومستحبہ الخ ومسح الرقبۃ بظہر یدیہ۔ (درمختار زکریا ۱؍۲۴۷-۲۴۸، بیروت ۱؍۲۲۲)

گلے کا مسح مشروع نہیں
وضو میں گلے پر مسح کرنا ثابت نہیں ہے؛ بلکہ خلافِ سنت اور بدعت ہے ۔

لا الحلقوم لأنہ بدعۃ۔ (درمختار زکریا ۱؍۲۴۸، بیروت ۱؍۲۲۲)

(۱۳) ترتیب وار وضو کرنا
یعنی جو ترتیب قرآن وسنت میں وارد ہے اسی کے مطابق وضو کرنا ۔

(۱۴) پے درپے اعضاء وضو پر پانی بہانا
وضو کرتے وقت اعضاء کو پے درپے دھونا مسنون ہے، یعنی ایک عضو کے خشک ہونے سے پہلے پہلے دوسرا عضو دھولیا جائے؛ لیکن اگر کسی وجہ سے اعضاء پے درپے نہ دھوئے جاسکے، مثلاً وضو کرتے وقت پانی ختم ہوگیا اور مزید پانی لانے سے پہلے اعضاء خشک ہوگئے، تو اب ازسر نو وضو کرنا ضروری نہیں؛ بلکہ مابقیہ اعضاء دھولینے سے بھی وضو بلاشبہ درست ہوجائے گا ۔

والولاء بکسر الواو، وغسل المتأخر أو مسحہ قبل جفاف الأول بلا عذر، حتی لو فني مائہ فمضی لطلبہ لا بأس بہ۔ (درمختار مع الشامي زکریا ۱؍۲۴۵، کفایت المفتی ۲؍۲۶۷، احسن الفتاویٰ ۲؍۱۴)

(١٥) داہنی طرف سے ابتدا کرنا

قَالَ اللہُ تَعَالٰی : یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِذَا قُمْتُمْ إِلیَ الصَّلوٰۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلیَ الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُؤُوْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلیَ الْکَعْبَیْنِ ۔ (سورۃ المائدہ : جزء آیت ۶)

(الدرالمختار مع الشامی زکریا ۱؍۲۱۸-۲۴۸)

مستفاد : کتاب المسائل، جلد نمبر ١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 ربیع الآخر 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں