پیر، 10 دسمبر، 2018

کیا آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا تھے؟

*کیا آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چچا تھے؟*

سوال :

آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چاچا تھے؟
آزر بت پرست تھے؟
اگر وہ بت پرست تھے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی ہے ربنااغفرلی ولوالدی.....الخ  وہ کیسے کی ؟ جبکہ ان کے والد بت پرستی پر تھے؟
کیا یہ بات صحیح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے نسب میں اوپر کی طرف کوئی بت پرست نہیں تھا ؟
(المستفتی : ابوسفیان، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تورات کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تارخ تھا، مگر قرآن کریم میں ان کا نام آزر بتایا گیا ہے ۔
چناچہ مفسرین کے نزدیک یہ تفاوت اشکال کا باعث بنا ہے ۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ تارخ اور آزر ایک ہی شخصیت ہے ۔ قرآن پاک میں تو واضح طور پر آزر لکھا ہے اور اگر ان کا اصل نام تارخ بھی تسلیم کرلیا جائے تو آزر لقب ہوسکتا ہے اور بعض اوقات نام کی نسبت لقب زیادہ مشہور ہوجاتا ہے جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا تو وہ زیادہ تر اسی لقب سے پہچانے جانے لگے اور ان کی اولاد بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی۔ آزر ایک بت کا نام بھی تھا جس کی وہ پوجا کرتے تھے بلکہ خود بت تراش اور بتوں کی تجارت کرتے تھے آپ مشرکین کے امام اور مندروں کے محافظ تھے، ان کا لقب آزر شاید اسی بت کی نسبت سے مشہور ہوگیا ۔ بہرحال قرآن پاک نے ان کا نام آزر بتایا ہے۔ دونوں ناموں میں سے ایک کو اصل نام اور دوسرے کو لقب مان لیا جائے تو تعارض باقی نہیں رہتا ۔
بعض مفسرین کے نزدیک آزر ابراہیم علیہ السلام کے باپ نہیں بلکہ چچا تھے، لیکن اسے ثابت کرنے کے لیے جو روایات وہ پیش کرتے ہیں، سب کی سب یا تو موضوع ہیں یا حد درجہ ضعیف ہیں ۔

اکثر مفسرین اسی کے قائل ہیں کہ تارخ اور آزر ایک شخصیت کے دو نام ہیں اور یہ ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی والد تھے جو بلاشبہ مشرک تھے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے والد سے استغفار کا وعدہ کرنا سورة مریم میں
سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي (47)
ترجمہ : میں اپنے پروردگار سے آپ کی بخشش کی دعا کروں گا ۔

اور سورة ممتحنہ میں :

إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ (4)
ترجمہ : البتہ ابراہیم نے اپنے باپ سے یہ ضرور کہا تھا کہ : میں آپ کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا ضرور مانگوں گا ۔

اور اس وعدے کے مطابق استغفار کرنا سورة شعراء میں واغفر لابی انہ کان من الضالين ۔ ترجمہ : میرے والد کی مغفرت فرما وہ گمراہوں میں سے ہے ۔ (86)
مذکور ہے ۔

چنانچہ سورہ توبہ کی اس آیت مبارکہ میں اس کی وضاحت کردی گئی ۔

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ
ترجمہ:
اور بخشش مانگنا ابراہیم کا اپنے باپ کے واسطے سو نہ تھا مگر وعدہ کے سبب کہ وعدہ کرچکا تھا اس سے، پھر جب کھل گیا ابراہیم پر کہ وہ دشمن ہے اللہ کا تو اس سے بیزار ہوگیا بیشک ابراہیم بڑا نرم دل تھا تحمل کرنے والا ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام پر یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کا انتقال کفر ہی کی حالت میں ہوگا، اور وہ آخر وقت تک اللہ تعالیٰ کے دشمن بنے رہیں گے تو انہوں نے استغفار کرنا بھی چھوڑ دیا ۔ اس سے علمائے کرام نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ کسی کافر کے لئے اس نیت سے مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے کہ اسے ایمان لانے کی توفیق ہوجائے اور اس طرح اس کی مغفرت ہوجائے، لیکن جس شخص کے بارے میں یہ یقین ہو کہ اس کی موت کفر پر ہوئی ہے اس کے لئے مغفرت کی دعا جائز نہیں ۔

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباء واجداد کے متعلق یہ کہنا کہ ان میں سے کوئی بھی مشرک نہیں تھا، قطعاً غلط ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد آپ کی نسل میں بہت سے مشرک گزرے ہیں۔ لہٰذا اگر ابراہیم علیہ السلام کے والد مشرک تھے تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، جس سے نبی کی معاذ اللہ توہین کا پہلو نکلتا ہو ۔
قرآن پاک میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ نکال دے ۔ یعنی یہ تو اس کی حکمت پر موقوف ہے، چاہے تو مشرک سے مؤحد پیدا فرما دے اور مومن کے نسب سے کافر پیدا کر دے ۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے، وہ جو چاہے کرے ۔ حضرت نوح علیہ السلام جیسے پیغمبر کا بیٹا اگر باپ کی بات نہیں مانتا تو غرق ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ ثابت کرنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل میں کوئی بھی مشرک نہیں تھا، حقیقت کے خلاف ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ بھی مشرک تھا اور ان کی اولاد میں بھی بہت سے مومن تھے اور بہت سے کافر و مشرک بھی تھے ۔ اور یہی باتیں تقریباً تمام تفاسیر میں درج ہیں ۔
بلکہ امام رازی اور بوحیان اندلسی یہاں تک فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام آباء و اجداد کو آدم تک مومن اور موحد تسلیم کرنا شیعوں کا عقیدہ ہے ۔
مستفاد: توضیح القرآن، تفسیر معالم العرفان) فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
15 محرم الحرام 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں