منگل، 20 نومبر، 2018

سنت پڑھتے ہوئے ظہر کی جماعت یا خطبہ جمعہ شروع ہوجائے تو کیا کرے؟

*سنت پڑھتے ہوئے ظہر کی جماعت یا خطبہ جمعہ شروع ہوجائے تو کیا کرے؟*

سوال :

ظہر سے قبل وقت تنگ ہونے کی صورت میں کیا دو رکعت سنت پڑھنے کی اجازت ہے؟ اور دوسرا مسئلہ چار کی نیت سے نماز شروع کی وقت تنگ ہونے کی وجہ سے دو ہی رکعت پر سلام پھیردیا تو کیا دو کی قضاء کرنی پڑے گی یا چار رکعت پڑھنا ہوگا؟
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
-----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر ظہر کی جماعت یا جمعہ کے خطبہ کا وقت قریب ہو تو سنت کی نیت نہیں باندھنی چاہئے، بلکہ اس کو مؤخر کردینا چاہئے، لیکن اگر کسی نے سنت  پڑھنی شروع کی اور درمیان ہی میں نماز یا خطبہ شروع ہوگیا تو کیا کرے؟ اس بارے میں درج ذیل تفصیل ہے :

۱) اگر قعدۂ اولی سے پہلے جماعت شروع ہوگئی تو قعدۂ اولی ہی پر سلام پھیردے اور جماعت میں شامل ہوجائے اور نماز کے بعد وہ  چار رکعت سنتِ مؤکدہ دوبارہ پڑھے ۔ بعد میں صرف دو رکعت پڑھنے سے سنت ادا نہ ہوگی ۔

والشارع فی نفل لایقطع مطلقاً ویتمہ رکعتین وکذا سنۃ الظہر وسنۃ الجمعۃ إذا أقیمت أو خطب الإمام یتمہا أربعاً علی القول الراجح الخ، خلافاً لما رجحہ الکمال (درمختار) حیث قال، وقیل: یقطع علی رأس الرکعتین لأنہ یتمکن من قضائہا بعد الفرض ولا ابطال في التسلیم علی الرکعتین فلا یفوت فرض الاستماع والأداء علی الوجہ الأکمل بلا سبب۔ (شامی زکریا ۲؍۵۰۶)

قال فی شرح المنیۃ: أما إذا شرع فی الأربع التی قبل الظہر وقبل الجمعۃ أو بعدہا ثم قطع فی الشفع الأول أو الثانی یلزمہ قضاء الأربع باتفاقٍ لأنہا لم تشرع إلا بتسلیمۃٍ واحدۃٍ۔ (شامی بیروت ۲؍۴۱۶)

۲) دوسری صورت یہ ہے کہ جماعت اس وقت شروع ہوئی جب کہ سنت پڑھنے والا شخص سنت کی تیسری رکعت کا سجدہ کرچکا تھا، تو اب اسے چاہئے کہ چوتھی رکعت پوری کرکے ہی سلام پھیرے ۔

أما إن قام إلیہا وقیدہا بسجدۃٍ ففی روایۃ النوادر یضیف إلیہا رابعۃ ویسلم۔ (شامی زکریا ۲؍۵۰۷)

۳) تیسری صورت یہ ہے کہ قعدۂ اولی کے بعد تیسری  رکعت  کے لئے کھڑا ہوا، مگر ابھی سجدہ نہیں کیا تھا کہ جماعت شروع ہوگئی یا امام نے خطبہ کا آغاز کردیا، تو اس بارے میں مشائخ حنفیہ کا اختلاف ہے، بعض مشائخ کی رائے یہ ہے کہ ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ قعدۂ اولی کی طرف لوٹ آئے اور دو رکعت  ہی پر سلام پھیردے (اور سجدۂ سہو بھی کرے) جب کہ دیگر مشائخ کا قول یہ ہے کہ اس صورت میں اس شخص کو مختصر قرأت کے ساتھ سنت  کی ۴؍رکعات پوری کرنی چاہئیں، دلیل کے اعتبار سے اسی قول کو مضبوط کہا گیا ہے ۔

وإن لم یقیدہا بسجدۃٍ، قال فی الخانیۃ: لم یذکر فی النوادر۔ واختلف المشائخ فیہ، قیل: یتمہا أربعاً ویخفف القراء ۃ، وقیل: یعود إلی القعدۃ ویسلم، وہٰذا أشبہ، قال فی شرح المنیۃ: والأوجہ أن یتمہا الخ۔ (شامی زکریا ۲؍۵۰۷)
مستفاد : کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 ربیع الاول 1440

9 تبصرے: