اتوار، 18 نومبر، 2018

فرض نماز میں بسم اللہ جہراً پڑھنے کا حکم

*فرض نماز میں بسم اللہ جہراً پڑھنے کا حکم*

سوال :

مسئلہ یہ ہے کہ آج جمعہ میں امام صاحب نے سورہ فاتحہ سے پہلے زور سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا اور اسی طرح دوسری سورۃ پڑھنے سے پہلے بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا دونوں رکعتوں میں اسی طرح کیا تو کیا جہراً پڑھنے کے بارے میں کچھ دلیل وغیرہ ہے؟
(المستفتی : شاکر بھائی، کوپرگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے نزدیک  نماز میں میں بسم اللہ  کا آہستہ پڑھنا مسنون ہے، اور جہراً پڑھنا خلافِ اولٰی ہے ۔ 

ہماری دلیل ترمذی اور مسند احمد کی یہ روایت ہے :

عبداللہ بن مغفل کہتے ہیں کہ میرے والد اگر ہمیں بلند آواز سے بسم اللہ پڑھتے ہوئے سنتے تو فرماتے اس سے اجتناب کرو۔ یزید کہتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ نبی ﷺ کے کسی صحابی کو بدعت سے اتنی نفرت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کیونکہ میں نے نبی ﷺ اور تینوں خلفاء کے ساتھ نماز پڑھی ہے میں نے ان میں سے کسی کو بلند آواز سے بسم اللہ پڑھتے ہوئے نہیں سنا ہے ۔

حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْجُرَيْرِيِّ سَعِيدِ بْنِ إِيَاسٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَايَةَ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ أَبِي وَأَنَا أَقْرَأُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِيَّاكَ وَالْحَدَثَ فِي الْإِسْلَامِ فَإِنِّي صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَلْفَ أَبِى بَكْرٍ وَخَلْفَ عُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ فَكَانُوا لَا يَسْتَفْتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِبِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَلَمْ أَرَ رَجُلًا قَطُّ أَبْغَضَ إِلَيْهِ الْحَدَثُ مِنْهُ. (رواہ الترمذی و احمد)

بسم اللہ  زور سے پڑھنا یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا مسلک ہے اور بعض احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
دار قطنی میں ہے : عن علی قال : کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کان یجھر ببسم اللہ الرحمن الرحیم فی سورتین جمیعا ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں جہرا بسم اللہ پڑھا کرتے تھے ۔
(دار قطنی ، باب وجوب قراء ة بسم اللہ الرحمن الرحیم ج اول ص ٣٠٢نمبر ١١٤٣) 

امام شافعی رحمہ اللہ کی اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ کبھی کبھار تعلیم دینے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کر دیا، ورنہ عام طور پر زور سے نہیں پڑھتے تھے آہستہ پڑھتے تھے جسکے ہم بھی قائل ہیں ۔ اور اسکی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ حضرت انس کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ بسم اللہ زور سے نہیں پڑھتے تھے بلکہ حدیث کا انداز یہ ہے کہ پڑھتے ہی نہیں تھے ۔

عن انس بن مالک أنہ حدثہ قال : صلیت خلف النبی ۖ ، و ابی بکر ، وعمر ، وعثمان ، فکانوا یستفتحون بالحمد للہ رب العالمین ، لا یذکرون بسم اللہ الرحمن الرحیم ، فی اول قراء ة ، و لا فی آخرہ ۔ ( مسلم شریف ، باب حجة من قال لا یجھر بالبسملة ص ١٧٢ نمبر ٣٩٩ ٨٩٢بخاری شریف ، باب ما یقول بعد التکبیر ص ١٠٣ نمبر ٧٤٣)

اس حدیث میں ہے کہ حضور اور صحابہ بسم اللہ پڑھتے ہی نہیں تھے نہ شروع میں نہ آخر میں ۔ ہم دونوں حدیثوں کو ملا کر کہتے ہیں کہ بسم اللہ سورة فاتحہ کے شروع میں پڑھے لیکن آہستہ پڑھے ۔ 

عن ابراھیم قال : یخفی الامام : بسم اللہ الرحمن الرحیم ، و الاستعاذة ، و آمین، و ربنا لک الحمد ۔ (مصنف ابن ابی شیبة ، ١٩٣ من کان لا یجھر ببسم اللہالرحمن الرحیم ، ج اول ، ص ٣٦٠ ، نمبر ٤١٣٦ مصنف عبد الرزاق ، باب ما یخفی الامام ، ج ثانی ، ص ٨٧ ، نمبر ٢٥٩٦ )

وروایات الفریق الثانی مجملة أو أدون إسناداً عن الاول و مع ہذا فہی ما یمکن حملہا و تاویلہا إلی احادیث الفریق الأول (معارف السنن ۲/۴۶۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 ذی القعدہ 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں