*خود کشی سے متعلق چند سوالات کے جوابات*
سوال :
مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ دور حاضر میں ڈپریشن بڑھ جانے کی وجہ خودکشی کے واقعات بڑھ گئے ہیں اس میں بعض مرتبہ ذہنی طور پر مریض اس قدر ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے کہ اچھے برے کی تمیز ختم ہوجاتی ہےکبھی وہ اپنا غم ہلکا کرنے کے لئے شراب یا کسی اور چیز کا سہارا لیتا ہے اسی طرح کچھ لوگ جراثیم کش دوائیں چیونٹی کا پاؤڈر وغیرہ استعمال کرلیتے ہیں یعنی کچھ لوگوں کی نیت مرنے کی نہیں ہوتی مگر مقدار زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے موت واقع ہوجاتی ہے تو کیا یہ خودکشی میں داخل ہے؟ اسی طرح جنونی کیفیت میں پھانسی لگالیں یا کہیں سے کود جائیں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر آدمی نے اپنے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا مگر موت کو قریب دیکھ کر توبہ کرلے تو کیا اس توبہ قبول ہوجائیگی؟ مطلب یہ کہ کسی نے زہر استعمال کرلیا خودکشی کی نیت سے یا تیز دھار ہتھیار سے کسی عضو کو کاٹ لیا اور کچھ دیر بعد موت واقع ہوگئی لیکن موت سے پہلے اگر توبہ کرلے تو کیا توبہ قبول ہوگی؟
اسی طرح جن لوگوں پر خودکشی کا اطلاق ہوجائے تو ان کے بحیثیت کلمہ گو ہونے کے آخرت میں سزا بھگتنے کے بعد معافی کا موقع ہوگا یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرماکر عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی : محمد رافع الدین، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر خود کشی کی نیت سے مذکورہ اقدام نہ کیے گئے ہوں لیکن اس اقدام کی وجہ سے مرجائے تو ایسا شخص خود کشی کا مرتکب تو نہیں کہا جائے گا، لیکن خود کو تکلیف پہنچانے اور شراب وغیرہ پینے کی وجہ سے سخت گناہ گار ہوگا۔
اگر کوئی خود کشی کے ارادہ سے زہر کھالے یا دھار دار ہتھیار سے کوئی عضو کاٹ لے لیکن حالتِ نزع سے پہلے پہلے سچی پکی توبہ کرلے تو یہ عنداللہ مقبول ہوگی، اور ایسا شخص خود کشی جیسے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا شمار نہیں ہوگا۔
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا۔ (سورةالنساء : آیت ١٤)
ولیست التوبة ۔۔۔۔ وقع فی النزع ورأی ملائکة العذاب قال انی تبت لآن یعنی حین یساق روحہ فحینئذ لایقبل من کافر ایمان ولامن عاص توبة۔ (تفسیرمظہری : ٢٥٧/٢)
عن ابن عمر رضي االلہ عنہ عن النبي صلی االلہ علیہ وسلم قال : إن االلہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر۔ (ترمذي شریف، کتاب الدعوات، باب إن اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر، رقم : ۳۵۳۷)
خود کشی اکبر الکبائر میں سے ہے، احادیث میں خود کشی کرنے والے کے متعلق سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے، اور فقہاء کرام نے اکابر و با اثر علماء کو ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے تاکہ دوسرے لوگوں کو تنبیہ ہو، اور اس سے عبرت حاصل کریں۔ تاہم اسے کافر نہیں کہا جائے گا، بلکہ اس کے انتقال کی خبر سن کر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا جائے گا۔ اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے لیے دعائے مغفرت بھی کی جائے گی۔ جس طرح دیگر معاصی اور گناہ کے کام حرام ہیں اسی طرح خودکشی بھی حرام ہے، جس طرح دوسرے گناہوں پر مؤاخذہ ہے اسی طرح خود کشی پر بھی ہوگا۔ لہٰذا ایسا شخص اپنے کئے کی سزا پا لینے کے بعد جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ اس لئے کہ اہلِ سنت والجماعت کا متفقہ مسلک یہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اس وقت تک دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا جب تک اس گناہ کبیرہ کو حلال نہ سمجھے جس کی حرمت نصِّ قطعی سے ثابت ہے۔
قال اللّٰہ تعالیٰ : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَآءُ ۔ (سورۃ النساء : ۱۱۶)
اعلم إن الروایات قد صحت أن أہل التوحید یعذبون، ثم یخرجون منہا ولا یخلدون ۔ (فتح الملہم، اشرفیہ دیوبند : ۱/۲۲۵)
من قتل نفسہ ولوعمدا یغسل ویصلی علیہ وبہ یفتی وان کان اعظم وزرامن قاتل غیرہ (وقال ابن عابدین)قولہ وبہ یفتی لانہ فاسق غیر ساع فی الارض بالفساد وان کان باغیا علی نفسہ کسائر فساق المسلمین ۔ (شامی : ١/٦٤٣)
ان الکبیرة التی ھی غیرالکفر لاتخرج العبدالمومن من الایمان لبقاء التصدیق الذی ھو حقیقة الایمان۔ (شرح العقائد : ١٣٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ربیع الاول 1440
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںایک شخص کا انتقال ہوا ظاہراً تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پھانسی لیا ہے لیکن کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوا اسکے گھر میں جنات کے اثرات ہے اس شخص کی موت کے 3 مہینے کے بعد اسکے بھائی کے خواب لڑکی کی شکل آیا اس کہنے لگا کہ اب تیری باری باری ہے
جواب دیںحذف کریںاور کچھ عامل حضرات نے بھی اثرات کے بارے میں بتایا ہے
تو اس شخص کی موت کا کیا حکم لگے گا خودکشی یا طبعی موت
حکم لگاکر کیا کریں گے؟ اب وہ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں پہنچ گیا ہے جو بھی ہوا ہو اللہ تعالیٰ کو تو اس کا بخوبی علم ہے، لہٰذا اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو اس نے کیا ہوگا؟ اب ہم لوگوں کا اس بحث میں پڑنا ہی فضول ہے۔
حذف کریں