جمعہ، 9 نومبر، 2018

ایک مسجد کا قرآن یا دیگر اشیاء دوسری مسجد میں منتقل کرنے کا حکم

*ایک مسجد کا قرآن یا دیگر اشیاء دوسری مسجد میں منتقل کرنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب! ایک مسجد میں زائد قرآن ہیں کیا دوسری مسجد میں منتقل کرسکتے ہیں؟ اور اسی طرح مسجد کی دوسری چیزوں کے متعلق کیا حکم ہے؟ مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک مسجد میں قرآن کی تعداد اس قدر زیادہ ہوجائے، جس کی وجہ سے قرآن کریم کے بعض نسخے مہینوں اور سالوں تک تلاوت کے کام نہ آتے ہوں اور دینے والوں  کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہوتو ایسی صورت میں ضرورت سے زائد نسخوں کو دوسری مسجد میں دینا جہاں قرآن کے نسخے نہیں ہوتے ہیں یا بہت ہی کم ہوتے ہیں جائز اور درست ہے۔ کیونکہ قرآن کریم مسجد میں دینے میں دینے والوں کا مقصدقرآن کے ان نسخوں میں تلاوت کرنا ہے۔

2) اگر کوئی چیز مسجد کی حاجت سے زائد ہو اور آئندہ کسی وقت اس کی ضرورت واقع ہونے کا احتمال بھی نہ ہو اور رکھا رہنے میں ضائع ہونے کا  اندیشہ ہو تو دوسری قریب کی مسجد میں صرف کیا جا سکتا ہے۔

لو وقف المصحف علی المسجد أی بلا تعیین أہلہ قیل یقرأ فیہ أی یختص بأہل المترددین إلیہ ، وقیل: لا یختص بہ أي فیجوز نقلہ إلیٰ غیرہ ۔ (شامی، مطلب فی نقل کتب الوقف من محلہا، کراچی ۴/۳۶۶، زکریا ۶/۵۵۹)

وقف مصحفاً علی أہل مسجد للقراء ۃ إن یحصون جاز وإن وقف علی المسجد جاز ویقرأ فیہ، ولایکون محصوراً علی ہذا المسجد وبہ عرف نقل الکتب الأوقاف من محالہا للانتفاع بہ۔ (درمختار ، مطلب متیٰ ذکر للوقف مصرفا لابد أن یکون فیہم تنصیص علی الحاجۃ، زکریا ۶/۵۵۷)

فإن استغنی عنہ ہذا المسجد یحول إلیٰ مسجد اٰخر۔ (فتاویٰ عالمگیری، الباب الحادی عشرفی المسجد وما یتعلق بہ زکریاقدیم۲/۴۵۸، جدید۲/ ۴۱۰)

وکذا الرباط والبئر اذالم ینتفع بہما فیصرف وقف المسجد والرباط والبئرالی اقرب مسجد او رباط اوبئر ۔(شامی، ۵۱۳/ ٣)

لو اشتریٰ حشیشا، أو قندیلا، للمسجد فوقع الاستغناء عنہ ، کان ذلک لہ إن کان حیاً ۔ (البحرالرائق، الوقف ، فصل فی أحکام المسجد زکریا ۵/۴۲۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 صفر المظفر 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں