*مغرب کی اذان سے قبل دعا کرنے کا حکم*
سوال :
ایک صاحب کہنے لگے کہ مغرب سے پہلے دعا کرنا بدعت ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔ صرف جمعہ کے روز مغرب سے پہلے کرسکتے ہیں ۔ کیا انکی بات صحیح ہے؟
(المستفتی : محمد ابراہیم، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مغرب کی اذان سے پہلے دعا کرنے سے متعلق حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر مصنف ابن ابی شیبہ میں مذکور ہے کہ وہ مغرب کی اذان کے وقت دعا پسند فرماتے تھے ۔ اور فرماتے تھے کہ یہ دعا کی قبولیت کا وقت ہے ۔ (١)
لہٰذا اس وقت انفرادی طور پر دعا مانگنا درست ہے، جولوگ اسے بدعت کہتے ہیں وہ بالدلیل بدعت ثابت نہیں کرسکتے ۔ البتہ اس وقت دعا مانگنے کو لازم ضروری سمجھنا درست نہیں ہے ۔
جمعہ کے دن کے متعلق دعا کی ترغیب میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں ۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جمعہ کا دن بارہ ساعت کا ہوتا ہے ان میں سے ایک ساعت (گھڑی) ایسی ہے کہ اگر اس وقت کوئی مسلمان بندہ اللہ سے کچھ مانگے تو اس کو ضرور دیا جاتا ہے پس اس گھڑی کو عصر کے بعد آخر وقت میں تلاش کرو ۔ (٢)
١) عن ابن عمر -رضی اللہ عنہما- قال: کان یستحب الدعاء عند أذان المغرب، وقال: إنہا ساعۃ یستجاب فیہا الدعاء۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، کتاب الصلوۃ، أي الساعات یستجاب الدعا، المجلس العلمي ۵/ ۴۸۲، رقم: ۸۵۵۴)
وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال : کنا نؤمر بالدعاء عند أذان المغرب۔ رواہ البیقہي۔ (مشکوٰۃ المصابیح ۶۶)
٢) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو - يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ - أَنَّ الْجُلَاحَ مَوْلَى عَبْدِ الْعَزِيزِ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ - يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ - حَدَّثَهُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : " يَوْمُ الْجُمُعَةِ ثِنْتَا عَشْرَةَ - يُرِيدُ : سَاعَةً - لَا يُوجَدُ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ؛ فَالْتَمِسُوهَا آخِرَ سَاعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ ۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر 1048)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
8 رمضان المبارک 1439
جزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںبہت خوب ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریں