ہفتہ، 3 نومبر، 2018

غائبانہ نمازِ جنازہ کا حکم

*غائبانہ نمازِ جنازہ کا حکم*

سوال :

غائبانہ نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : ڈاکٹر اسامہ، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق :  احناف اور مالکیہ کے نزدیک شہید یا غیر شہید کسی کی بھی غائبانہ نمازِ جنازہ ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی یہ شرعاً معتبر ہوگی، اسلئے کہ نمازِ جنازہ کےصحیح ہونے  کیلئے میت کا سامنے موجود ہونا شرط ہے، اور یہ شرط یہاں مفقود ہے ۔ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں شہیدہوئے اور آپ کو مدینہ میں اس کی اطلاع ہوئی مگر آپ نے ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی ۔ 

البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت نجاشی ؓ اور حضرت معاویہ بن معاویہ مزنیؓ کی جو  نماز جنازہ غائبانہ ادا فرمائی ہے اسکی وجہ یہی تھی کہ ان دونوں حضرات کا جنازہ اللہ تعالیٰ نے بطورِمعجزہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کردیا تھا، اسلئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح نماز ادا فرمائی جو بظاہر غائبانہ تھی لیکن حقیقتاً غائبانہ نہیں تھی، اور اب یہ خصوصیت کسی اور کو حاصل نہیں ہے، لہٰذا ان روایات سے استدلال کرکے غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرنا درست نہ ہوگا۔

وشرطہا ( صلاۃ الجنازۃ ) ایضاحضورہ ووضعہ وکونہ ہو اواکثرہ امام المصلی وکونہ للقبلۃ فلاتصح علی غائب …وصلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی النجاشی لغویۃ اوخصوصیۃ ( قولہ لغویۃ ) ای المراد بہا المجردالدعاء وہوبعید ( قولہ اوخصوصیۃ ) اولانہ رفع سریرہ حتی رأہ علیہ السلام بحضرتہ فتکون صلاۃ من خلفہ علی میت یراہ الامام وبحضرتہ دون المأمومین وہذاغیرمانع من الاقتداء فتح واستدل لہذین الاحتمالین بمالامزید علیہ فارجع الیہ من جملۃ ذالک انہ توفی خلق کثیر من اصحابہ صلی اللہ علیہ وسلم من اعزہم علیہ القراء ولم ینقل عنہ انہ صلی علیہم مع حرصہ علی ذالک ‘‘ (شامی : ۶۴۱ / ۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 صفر المظفر 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں