*سوشل میڈیا گروپ میں سلام کے جواب کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اس وقت تقریباً ہر شخص واٹس ایپ وغیرہ استعمال کرتا ہے جہاں وہ گروپ میں ایڈ ہوتا ہے تو کوئی بھی میسج بھیجنے سے پہلے سلام کرتا ہے تو کیا جتنے لوگ گروپ میں شامل ہیں سب کو اس کا جواب دینا ضروری ہے یا اگر کوئی ایک شخص بھی جواب دیدے تو سب کی طرف سے ادا ہوجائے گا؟ جواب ٹائپ کرنا ضروری ہے یا پھر دل میں دینے سے ادا ہوجائے گا؟
جواب دیکر عند اللہ مأجور ہوں ۔
(المستفتی : جاوید احمد، کوپرگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کوئی شخص کسی مجمع یا چند لوگوں کو سلام کرے تو ان میں سے اگر کوئی ایک بھی جواب دیدے، تو سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا، اور اگر کسی نے بھی جواب نہ دیا تو وہ سب ذمہ دار ہوں گے۔ البتہ سلام کرنے والے نے کسی کا نام لے کر سلام کیا ہے، تو پھر صرف اُسی کے ذمہ جواب دینا واجب ہوگا۔
چنانچہ سوشل میڈیا گروپ بھی مجمع عام کے حکم میں ہے اگر کوئی ایک شخص بھی جواب دے دے تو سب کی طرف سے کافی ہوجائے۔
مطلب جب کوئی شخص سوشل میڈیا گروپ میں سلام لکھے، اور وہ دوسروں کو پہنچ جائے، اور وہ لوگ پڑھ کر اس پر مطلع ہوجائیں تو ان پر صرف لفظاً (قولاً) سلام کا جواب دینا واجب ہے، صاحبِ در مختار علامہ محمد ابن علی حصکفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تحریری سلام کا جواب دینا ایسا ہی واجب ہے، جیسے حاضرشخص کے سلام کا جواب دینا واجب ہے۔
قال اللہ تعالیٰ : واذا حُیّیتم بتحیّۃ فحیّوا باحسنَ منہآ او رُدّوہا ان اللّٰہ کان علی کل شيء حسیبًا۔ (سورۃ النساء : ۸۶)
ویجب ردّ جواب کتاب التحیۃ کردّ السلام ۔ (روح المعانی، ۴/۱۴۸)
(ردّ جواب الکتاب حق کردّ السلام) أي إذا کتب لک رجل بالسلام في کتاب ووصل إلیک وعلمتہ بقراءتک او بقراءۃ غیرک وجب علیک الرد باللفظ أو المراسلۃ ۔ (فیض القدیر ۴/۳۱ ، تحت الرقم :۴۴۴۸)
ویجب ردّ جواب کتاب التحیۃ کردّ السلام ۔ [در مختار] ۔ وفي الشامیۃ : قولہ : (ویجب رد جواب کتاب التحیۃ) لأن الکتاب من الغائب بمنزلۃ الخطاب من الحاضر ۔ مجتبی ۔ والناس عنہ غافلون ۔ ط ۔ أقول : المتبادر من ہذا أن المراد رد سلام الکتاب لا رد الکتاب ۔ (شامی : ۹/۵۹۴ ، الحظر والإباحۃ ، باب الاستبراء وغیرہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 شوال المکرم 1439
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں