منگل، 13 نومبر، 2018

حالتِ جنابت میں ڈیوٹی پر چلے جانے کا حکم

*حالتِ جنابت میں ڈیوٹی پر چلے جانے کا حکم*

سوال :

زید پاورلوم کاریگر ہے اور وہ حالت جنابت میں جمعہ کے روز ڈیوٹی پر جاتا ہے چار پانچ گھنٹے کام کرتا ہے اور لوم وغیرہ کی صاف صفائی کرتا ہے پھر اسی ناپاکی کی حالت میں اپنے ہفتے بھر کا محنتانہ لیتا ہے۔ زید سے بارہا کہا گیا ہے کہ بھائی ڈیوٹی پر غسل کر کے آیا کر تو وہ یہ کہہ کر ٹال دیتا ہے کہ لوم وغیرہ کی صفائی کرنا رہتی ہے اس لیے وہ نہا کر نہیں آتا۔
عیاں رہے کہ زید صرف جمعہ کے روز ناپاکی کی حالت میں آتا ہے پورا ہفتہ پاک و صاف رہتا ہے۔
ہمارے شہر میں زیادہ تر کاریگر حضرات کا یہی حال ہے تقریباً %70 لوگوں کا ہے، ایسے لوگوں کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ مدلل جواب ارسال فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں ۔
(المستفتی : محمد عارف محمد حنیف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ غضیب بن حارث ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دریافت کیا کہ رسول کریم ﷺ رات کے کس حصہ میں غسل فرماتے تھے؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کبھی شروع حصہ میں (مباشرت کے فوراً بعد) اور کبھی آخری حصہ (تہجد کے وقت) میں غسل فرماتے تھے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ اس پاک رب العالمین کا شکرو احسان ہے کہ جس نے (سہولت اور) گنجائش رکھی۔

درج بالا حدیث شریف کی بنا پر فقہاء امت نے غسلِ جنابت میں  فرض نماز کی ادائیگی کے وقت تک غسل میں تاخیر کو جائز کہا ہے، اس کے بعد غسل کرنے والا سخت گناہ گار ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے رات میں ہی صحبت کی ہے تو غسلِ جنابت میں فجر کی نماز کے وقت تک تاخیرجائز ہے، لیکن فجر کی نماز ترک کرکے ناپاکی کی حالت میں سورج طلوع ہوجانے کے بعد اٹھنا سخت گناہ کی بات ہے، اور اسی حالت میں ڈیوٹی پر چلے جانا رزق میں بے برکتی کا سبب ہوگا، لہٰذا زید کو اس کا خوب خیال رکھنا چاہیے۔ تاہم یہ سمجھنا بھی غلط ہے کہ ناپاکی کی حالت میں تنخواہ لینے سے تنخواہ حرام ہوجاتی ہے۔ تنخواہ بدستور حلال ہی رہتی ہے۔

أَخْبَرَنَا  عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا  مَخْلَدٌ ، عَنْ  سُفْيَانَ ، عَنْ  أَبِي الْعَلَاءِ ، عَنْ  عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ  غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ،أَنَّهُ سَأَلَ  عَائِشَةَ  رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : أَيَّ اللَّيْلِ كَانَ يَغْتَسِلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ : رُبَّمَا اغْتَسَلَ أَوَّلَ اللَّيْلِ، وَرُبَّمَا اغْتَسَلَ آخِرَهُ. قُلْتُ : الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً۔ (صحيح مسلم، حدیث نمبر 307 )

عن غفیف بن الحارث قال قلت لعائشة ارأیت رسول اللہ ۖ کان یغتسل من الجنابة فی اول الیل اوفی اٰخرہ قالت ربماتغسل فی اول اللیل وربماتغسل فی اٰخرہ قلت اللہ اکبر الحمدللہ الذی جعل فی الامر سعة …فی اول اللیل ای علی الفور بعدالفراغ من الجنابة اوفی اٰخرہ ای یغتسل فی اٰخراللیل ای یؤخر الغسل الی اٰخراللیل قالت ای عائشة کانت لہ تارات وحالات مختلفة ربمااغتسل فی اول اللیل وہذا اقوی واقرب الی التنظیف وربما اغتسل فی اٰخرہ تیسیرا علی الامة ولبیان الجواز۔ (بذل المجہود:١٣٨/١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ربیع الاول 1440

2 تبصرے: