*استخارہ کے احکامات*
سوال :
محترم مفتی صاحب! استخارہ کا کیا حکم ہے؟ اس کی فضیلت اور طریقہ بیان فرمائیں۔ کیا خود ہی استخارہ کرنا ضروری ہے یا دوسروں سے بھی کروایا جاسکتا ہے؟ کیا استخارہ کا کوئی مختصر طریقہ بھی ہے؟ برائے مہربانی تمام سوالات کے مفصل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : انصاری شفیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جب انسان کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے رہنمائی لینے اور خیر طلب کرنے کو استخارہ کہتے ہیں، یہ عمل شرعاً مسنون ومستحب ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کی بڑی ترغیب آئی ہے، لہٰذا بوقت ضرورت مسلمانوں کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ابن آدم کی سعادت ہے کہ وہ ہر معاملے میں اللہ سے استخارہ کرے اور اس کے فیصلے پر راضی رہے اور ابن آدم کی بدنصیبی ہے کہ وہ اللہ سے استخارہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ کے فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرے۔
کہیں نکاح کا معاملہ ہو، طول طویل سفر کرنا ہو یا کوئی کاروبار شروع کرنا ہو تو استخارہ کرکے، کرنے سے ان شاءاللہ تعالٰی اپنے کئے پر پشیمانی نہ ہوگی۔
استخارہ کا طریقہ
حضرت جابر بن عبداﷲ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ تمام کاموں میں ہمیں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے جس طرح ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نماز، فرض نماز کے علاوہ (نفل) پڑھے، اس کے بعد (خوب دل لگا کر) یہ دعا پڑھے :
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللّٰهُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ ، فَاقْدِرْهُ لِیْ ، وَ یَسِّرْهُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْهِ وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِهٖ وَ اٰجِلِهٖ ، فَاصْرِفْهُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْهُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِهٖ
ترجمہ : اے اللہ ! میں آپ کے علم کے ذریعہ خیر کا طالب ہو، اور آپ کی قدرت سے طاقت حاصل کرنا چاہتا ہوں، اور آپ کے فضلِ عظیم کا سائل ہوں، بے شک آپ قادر ہیں اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور آپ کو علم ہے کہ میں لاعلم ہوں، اور آپ چھپی ہوئی باتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اے اللہ! اگر آپ علم کے مطابق یہ کام (یہاں اس کام کا تصور کرے) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کار کے اعتبار سے) بہتر ہے، تو اسے میرے لئے مقدر فرمائیے، اور اسے میرے حق میں آسانی کرکے اس میں مجھے برکت سے نوازے، اور اگر آپ کو علم ہے کہ یہ کام (یہاں کام کا تصور کرے) میرے حق میں دینی، دنیوی اور اخروی اعتبار سے (یا فی الحال اور انجام کے اعتبار سے) برا ہے تو اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے ہٹادے اور جس جانب خیر ہے وہی میرے لئے مقدر فرمادے، پھر مجھے اس عمل سے راضی کردے۔ (بخاری شریف، رقم : ۱۱۶۶)
جب ’’ہذا الأمر‘‘ پر پہنچے تو اپنی مراد پر دھیان کرے، پھر پاک بستر پر قبلہ کی طرف منہ کرکے سوجائے اور بیداری پر جو بات دل میں مضبوطی سے آئے وہی بہتر پہلو ہے اور اسی میں خیر ہے، لہٰذا اس پر عمل کرے۔ استخارہ دن اور رات ہر وقت کرسکتے ہیں، استخارہ کے لیے دن یا رات کی کوئی قید نہیں ہے، بلکہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق اس کے لیے سونا بھی ضروری نہیں ہے۔ ملحوظ رہے کہ استخارہ میں کسی رنگ یا کسی کا خواب کا دکھنا ضروری نہیں، بلکہ استخارہ کا مطلب ہے کہ اللہ سے خیر طلب کرنا، لہٰذا جس پہلو میں خیر ہو اللہ تعالیٰ دل کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں، البتہ اگر ایک دن میں دل کا میلان کسی ایک طرف نہ ہو تو تین دن تک استخارہ کیا جائے اگر تین دن میں بھی نہ ہوتو سات روز تک کرے، انشاء اﷲ تعالیٰ کام کی اچھائی برائی معلوم ہوجائے گی۔ اگر سات دن کے بعد بھی تذبذب باقی رہے تو کسی خیر خواہ تجربہ کار سے مشورہ کرکے کام کا آغاز کردینا چاہیے۔
اگر کسی وجہ سے نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو صرف مذکورہ دعا پر بھی اکتفاء کیا جاسکتا ہے، ملحوظ رہے کہ استخارہ کے لیے پڑھی جانے والی نماز میں کسی مخصوص سورۃ کا پڑھنا ضروری نہیں ہے، لہٰذا کوئی بھی سورۃ پڑھی جاسکتی ہے۔ البتہ مستحب اور بہتر ہے کہ نماز استخارہ میں پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھے، اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ پہلی رکعت میں مزید یہ آیت بھی پڑھ لے : وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ، وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ۔ (سورۂ قصص، آیت :68-69) اور دوسری رکعت میں یہ آیت زیادہ پڑھ لے : وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا۔ (سورۂ احزاب، آیت : 36)
ایک روایت میں یہ مختصر استخارہ بھی منقول ہے کہ " اگر کسی آدمی کو جلدی ہو اور کوئی وقتی و ہنگامی کام ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صرف یہ پڑھ لے۔ اور جو دل میں آئے اس پر عمل کرلے۔
اَللّٰھُمَّ اخِرْلِیْ وَاَخْتَرْلِیْ وَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی اِخْتِیَارِیْ۔
ترجمہ : اے اللہ! میرے حق میں تیرے نزدیک جو بہتر اور مناسب ہو اسے میرے لئے پسند اور میرے لئے اختیار فرما اور مجھے میرے اختیار کا پابند نہ بنا۔
خود استخارہ کرنا مسنون ہے۔ البتہ دوسروں سے کروانا بھی جائز ہے۔ اکثر مساجد میں مصلیان امام صاحب سے اپنے کسی معاملہ میں استخارہ کی درخواست کرتے ہیں، لہٰذا ائمہ انہیں آسان انداز میں استخارہ کا طریقہ بتادیں، اور انہیں اس طرح بھی ترغیب دی جاسکتی ہے کہ آدمی اپنے مسئلہ میں زیادہ سنجیدہ ہوتا ہے، لہٰذا وہ زیادہ دلجمعی کے ساتھ یہ عمل کرے گا، اس لیے خود ہی استخارہ کرنا چاہیے۔
حَدَّثَنَا رَوْحٌ أَمْلَاهُ عَلَيْنَا بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ اسْتِخَارَتُهُ اللَّهَ وَمِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ رِضَاهُ بِمَا قَضَاهُ اللَّهُ وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ تَرْكُهُ اسْتِخَارَةَ اللَّهِ وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ۔ (مسند احمد، رقم : ١٤٤٤)
(قَوْلُهُ وَمِنْهَا رَكْعَتَا الِاسْتِخَارَةِ) عَنْ «جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا... الخ۔ رَوَاهُ الْجَمَاعَةُ إلَّا مُسْلِمًا شَرْحُ الْمُنْيَةِ.... «وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ» قَالَ ط: أَيْ بَدَلَ قَوْلِهِ «هَذَا الْأَمْرَ»قُلْت: أَوْ يَقُولُ بَعْدَهُ وَهُوَ كَذَا وَكَذَا.... وَفِي الْحِلْيَةِ: وَيُسْتَحَبُّ افْتِتَاحُ هَذَا الدُّعَاءِ وَخَتْمُهُ بِالْحَمْدَلَةِ وَالصَّلَاةِ۔ (شامی : ٢/٢٦)
وَفِي الْحِلْيَةِ: وَيُسْتَحَبُّ افْتِتَاحُ هَذَا الدُّعَاءِ وَخَتْمُهُ بِالْحَمْدَلَةِ وَالصَّلَاةِ. وَفِي الْأَذْكَارِ أَنَّهُ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى الْكَافِرُونَ، وَفِي الثَّانِيَةِ الْإِخْلَاصَ. اهـ. وَعَنْ بَعْضِ السَّلَفِ أَنَّهُ يَزِيدُ فِي الْأُولَى - {وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ} [القصص: 68]إلَى قَوْلِهِ - {يُعْلِنُونَ} [القصص: 69]- وَفِي الثَّانِيَةِ {وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ} [الأحزاب: 36] الْآيَةَ. وَيَنْبَغِي أَنْ يُكَرِّرَهَا سَبْعًا، لِمَا رَوَى ابْنُ السُّنِّيِّ «يَا أَنَسُ إذَا هَمَمْت بِأَمْرٍ فَاسْتَخِرْ رَبَّك فِيهِ سَبْعَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ اُنْظُرْ إلَى الَّذِي سَبَقَ إلَى قَلْبِك فَإِنَّ الْخَيْرَ فِيهِ» وَلَوْ تَعَذَّرَتْ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ اسْتَخَارَ بِالدُّعَاءِ اهـ مُلَخَّصًا. وَفِي شَرْحِ الشِّرْعَةِ: الْمَسْمُوعُ مِنْ الْمَشَايِخِ أَنَّهُ يَنْبَغِي أَنْ يَنَامَ عَلَى طَهَارَةٍ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ بَعْدَ قِرَاءَةِ الدُّعَاءِ الْمَذْكُورِ، فَإِنْ رَأَى مَنَامَهُ بَيَاضًا أَوْ خُضْرَةً فَذَلِكَ الْأَمْرُ خَيْرٌ، وَإِنْ رَأَى فِيهِ سَوَادًا أَوْ حُمْرَةً فَهُوَ شَرٌّ يَنْبَغِي أَنْ يُجْتَنَبَ اهـ۔ (شامی : ٢/٢٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 شوال المکرم 1439
Bohot khoob
جواب دیںحذف کریں