*عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ تقریباً تین چار سالوں سے عید میلاد النبی کے موقع پر جگہ جگہ بینر دیکھنے میں آتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے ۔ *عیدوں کی عید*
براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ کیا ایسا لکھنا صحیح ہے؟
اگر صحیح ہے تو آج سے 1400 سال پہلے تک کیوں نہیں لکھا گیا یا کہا گیا؟
اور اگر غلط ہے تو اس کی اصلاح مطلوب ہے ؟ اور اس عید کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ براہ کرم مفصل جواب عنایت فرمائیں تاکہ شوشل میڈیا کے ذریعے شہریان کو آگاہ کیا جائے ۔
(المستفتی : عمران الحسن ڈاکٹر مختار الحسن، حکیم نگر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ کے یومِ ولادت پر عید منانے کے بدعت ہونے پر علماء ربانیین نے کافی کچھ کہا اور لکھا ہے، بندہ یہاں مختصر میں چند اہم باتیں عرض کرے گا جس کی وجہ سے ان شاءاللہ عوام الناس کے لئے اس مسئلے کو وضاحت کے ساتھ سمجھنا آسان ہوگا۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو سال میں صرف دو ہی عیدیں (عید الفطر وعید الاضحٰی) عطا فرمائی ہیں۔ اسی طرح جمعہ کے دن کو بھی عید کا دن کہا گیا ہے۔
امام ابوداؤد، نسائی اور ابن حبان نے صحیح سند کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ والوں کو دیکھا کہ وہ دو دن کھیل کرتے ہیں، (خوشی مناتے ہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے ان دونوں کی جگہ اس سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں اور وہ فطر اور ضحی کے دو دن ہیں۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍقَالَ : قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا، فَقَالَ : " مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ ؟ ". قَالُوا : كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا : يَوْمَ الْأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ ۔ (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 1134)
عیدالفطر اور عیدالاضحٰی اور جمعہ علاوہ کسی چوتھی عید کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث، آثارِ صحابہ، اقوالِ ائمہ مجتہدین اور عبارات فقہاء سے قطعاً نہیں ملتا۔ چنانچہ ١٢ ربیع الاول کو عید میلاد النبی منانا یا کہنا جائز نہیں ہے، اور اس عید کے من گھڑت ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے یومِ ولادت ہی میں اختلاف ہے، جب کہ مذکورہ دونوں عیدوں کی تاریخ متعین ہے، اور حدیث شریف میں ان کے متعلق واضح احکامات موجود ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تاریخِ ولادت کے بارے میں علامہ نووی رحمہ اللہ نے چار اقوال نقل کیے ہیں اور ترجیح کسی ایک کو بھی نہیں دی ہے۔ پہلاقول یہ ہے کہ ٢ ربیع الاول کا دن تھا، دوسرا ٨ ربیع الاول کا دن تھا، تیسرا یہ کہ ١٠ تاریخ تھی اور چوتھا قول یہ ہے کہ ١٢ ربیع الاول کا دن تھا، جب کہ علامہ حلبی رحمہ اللہ کا رجحان سیرت حلبیہ میں ٩ تاریخ کی طرف ہے۔ اہل تاریخ وسیر نے ۸ ربیع الاول کے قول کو صحیح اور راجح کہا ہے، اس لئے ۱۲ ربیع الاول کو یقینی طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یومِ ولادت سمجھنا درست نہیں ہے۔ البتہ ربیع الاول کا مہینہ اور پیر کا دن ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
واتفقوا علی انہ ولد یوم الاثنین من شہرربیع الاول واختلفوا ہل ہوفی الیوم الثانی اوالثامن من ام العاشر او الثانی عشرفہذہ اربعة اقوال مشہورة۔ (تہذیب الاسماء ٥٠/١)
فقیل للیلتین وقیل لثمان خلون منہ…ونقل ابن عبد البر عن أصحاب التاریخ أنہم صححوہ …وقیل لعشر خلون منہ الخ۔ (البدایہ النہایہ، دارالفکر ۲/۲۶۰)
اب خود ہی غور فرمالیا جائے کہ اگر یہ عید دین کا حصہ ہوتی اور اس کا منانا باعثِ اجر و ثواب ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس کا ذکر کیوں نہیں فرمایا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے پاک ارشاد میں اس کو کیوں بیان نہیں فرمایا ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک ایک حرکات و سکنات کو بغور دیکھا اور اسے لوگوں میں بیان فرمایا یہاں تک آپ کی خلوت کے حالات بھی بیان فرمائے تو پھر آپ کے یومِ ولادت کی تاریخ یاد رکھنا ان کے لیے کون سا مشکل کام تھا؟ اس کے باوجود آثارِ صحابہ میں اس عید کا تذکرہ کیوں نہیں ہے؟ قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط کرنے والے ائمہ مجتہدین کے اقوال میں اس عید کا کوئی ذکر کیوں نہیں ہے؟ عباراتِ فقہاء کیوں اس مسئلے میں خاموش ہیں؟ معلوم ہوا کہ اس عید کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نئی چیز ہے، لیکن یہ کب ایجاد ہوئی؟ اس کی تحقیق کے لیے جب ہم تاریخ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے بعد چھ سو سال تک اس کا وجود نظر نہیں آتا۔ چھ صدی کے بعد اس بدعت کی ابتداء ۶۰۴ ہجری میں ہوئی، اور اس کا مؤجد شہرموصل کا بادشاہ مظفر الدین کوکری ہے، جو کہ ایک فضول خرچ اور فاسق و فاجر آدمی تھا۔ اس نے ابو الخطاب عمر بن دحیہ کو جسے اس وقت کا عالمِ دین سمجھا جاتا تھا محفل میلاد کے جواز وفضائل پر ایک کتاب لکھنے کا حکم دیا۔ بادشاہ کے حکم کے مطابق اس سرکاری عالم نے کتاب لکھ ڈالی اور اس کے صلہ میں ایک خطیر رقم بادشاہ سے وصول کی۔ اور یہ ابو الخطاب عمر بن دحیہ سلف صالحین اور ائمہ دین کی شان میں گستاخ اور بد زبان، احمق ومتکبر شخص تھا۔ لوگوں کی متفقہ رائے رہی ہے کہ وہ جھوٹا تھا۔ مذکورہ بادشاہ اپنی چلائی ہوئی اس بدعت پر سالانہ تقریباً تین لاکھ سکّۂ وقت خرچ کرتا رہا۔
کان ملکاً مسرفاً یأمر علماء زمانہ أن یعملوا باستنباطہم واِجتہادہم وأن لا یتبعوا لمذہب غیرہم حتی مالت اِلیہ جماعۃ من العلماء وطائفۃ من الفضلاء ویحتفل لمولد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فی الربیع الأول وہو أول من أحدث من الملوک ہذا العمل ۔ ( القول المعتمد فی عمل المولد) کان (عمر بن دحیہ) کثیر الوقیعۃ فی الائمۃ وفی السلف من العلماء خبیث اللسان أحمق شدید الکبر قلیل النظر فی أمور الدین متہاوناً۔ ( لسان المیزان، ۲۰۴/۴)
رأیت الناس مجتمعین علی کذبہ وضعفہ۔ (لسان المیزان، ۲۹۵/۴)
کان ینفق کلّ سنۃ علی مولد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم نحو ثلاث مائۃ الفٍ۔ (دول الاسلام، ۱۰۳/۲)
اس بدعت کو دھوم دھام سے منانے والا طبقہ اس پر عجیب و غریب غیرعلمی دلائل پیش کرتا ہے، جن میں قرآنی آیات کی تفاسیر میں غلط تطبیق، موضوع من گھڑت روایات کا سہارا، اور اسلاف کی عبارات سے دھوکہ دینا وغیرہ شامل ہیں، مثلاً امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں میلاد النبى صلی اللہ علیہ وسلم کا باب قائم کیا (جس کے معنی ہوتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کا بیان) تو اسے ہی دلیل بنالیا کہ دیکھو امام ترمذی نے میلاد النبی کا باب باندھا ہے، اب عوام اس میں کہاں دیکھنے جائیں گے کہ اس باب میں کون سی احادیث کو ذکر کیا گیا ہے؟ جبکہ اس باب میں وہ روایات جمع کی گئی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا ذکر ہے۔ نہ کہ پیدائش کے دن کو جشن کے طور پر منانے کا ذکر ہے۔
ایک سلیم الفطرت مسلمان جس نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطالعہ کیا ہو، عصبیت سے پرے ہوکر اگر ٹھنڈے دماغ سے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جشن کے نام پر آج جو کچھ ہورہا ہے، مثلاً لوگوں کو ایذا پہنچاتا ہوا جلوس، جس میں انتہائی تیز آواز سے شرکیہ نعتوں کا بجانا، بے پردگی، چراغاں اور سجاوٹ کے نام پر امت کا لاکھوں روپیہ فضول میں خرچ کردینا، کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس سے خوش ہوتے ہوں گے؟ کیا یہ سب چیزیں اسلام کا حصہ ہوسکتی ہیں؟ کیا کوئی غیرمسلم ان خرافات کو دیکھ کر اسلام سے قریب اور متاثر ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب یہی ہوگا کہ قطعاً نہیں، اسلام اور ہم سب کے آقا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ تعلیمات بالکل نہیں ہیں، یہ تو شیطان کا مکر و فریب ہے، جس نے دین کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے ایک طبقہ کو دین کے نام پر گمراہ کیا ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی عرض کرنی ہے کہ اس امت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے پیشوا (نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم) سے انتہاء درجے کی محبت کرتی ہے، جس کی نظیر دیگر قوموں میں نہیں ملتی، بس اسی محبت کا کچھ لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھا کر آپ کی ولادت کے جشن کے نام پر ایک طبقہ کو گمراہ کردیا، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بجائے جشنِ ولادت منانے کے، امت کو فرض اعمال پر کھڑا کیا جاتا، آپ کی سنتوں کو عام کرنے کی کوشش کی جاتی، لیکن نہیں، شیطان تو ایسی ہی چیزوں کو عین ثواب سمجھ کر کرواتا ہے کہ وہ اسی میں الجھے رہیں اور دین کی اصل تعلیمات سے غافل رہیں۔
امید ہے کہ درج بالا تفصیلات سے آپ کو اس بات کا بخوبی علم ہوگیا ہوگا کہ ۱۲ ربیع الاول کو عید میلاد النبی منانا اور کہنا بالکل جائز نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بدعت سیئہ ہے جس سے ہرمسلمان کا بچنا ضروری ہے، اور جب اسے عید کہنا جائز نہیں ہے تو عیدوں کی عید کہنا بدرجہ اولٰی ناجائز ہوگا۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سچی محبت کرنے والا اور ان کی سنتوں پر عمل کرکے اس کی دعوت دینے والا بنائے۔ اور بدعات منکرات سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 ربیع الاول 1440
واہ بھائی ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت خوب بہت ہی قیمتی بلاگ
جواب دیںحذف کریںجزاكم اللّٰہ خيراً و احسن الجزاء، اللہ تبارک و تعالٰی مفتی صاحب کے علم میں برکت عطا فرمائے، بہت ہی بہترین انداز میں رہنمائی فرمائی.
جواب دیںحذف کریںما شاء اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کی اس خدمت کو قبول فرمائے۔ آمین
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ الحمدللہ
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ۔ تبارک اللہ اللہ پاک مزید ترقی عطا فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریںBahut sahi kha aap ny
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء. اللہ پاک آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے اور استقامت عطا فرمائے آمین.
جواب دیںحذف کریںڈاکٹر مختار احمد انصاری
اللہ ہم سب کو بدعات سے محفوظ رکھے ۔
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریں'' جَزَاکَ اللَّهُ خَيْرًا ''
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںMasha Allah Mufti Allah pak aapko jazaye kher ata farmaye
جواب دیںحذف کریںMasha Allah
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جواب دیںحذف کریںایک سوال یہ ہے کہ عید میلاد النبی ﷺ منانے کے کوئی احکامات نہیں ملتے ہیں تو اس کو منانے کے لیے کہیں منع نہیں کیا گیا ہے
اسکا کیا جواب دیں۔
جب یہ ثواب کا کام تھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ وسلف صالحین نے کیوں نہیں کیا؟ اگر نہیں کیا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ عمل بعد میں شروع کیا گیا ہے اور جب بعد میں شروع کیا گیا ہے اور یہ دین کا حصہ نہیں ہے تو بلاشبہ بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
حذف کریںواللہ تعالٰی اعلم
حضرت مفتی صاحب ایک جید عالم دین کے ساتھ فن افتاء میں زبردست تحقیق کے ساتھ ساتھ تحریر کا تسلسل ،پختہ دلائل فن اردو ادب کی تمام خوبیاں حضرت کی تحریر کا خاص وصف ہے ۔اللہ پاک بے انتہا شرف قبولیت عطا فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریں