*آیت کریمہ مَنْ كَانَ يَظُنُّ أَنْ لَنْ يَنْصُرَهُ اللَّهُ الخ کی تفسیر*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ تبلیغی جماعت کے ایک عالم امیر صاحب نے آیت کریمہ :
مَنْ كَانَ يَظُنُّ أَنْ لَنْ يَنْصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ ۔ (سورہ الحج آیت : 15)
ترجمہ : جس کو یہ خیال ہو کہ ہرگز نہ مدد کرے گا اس کی اللہ دنیا میں اور آخرت میں تو تان لے ایک رسی آسمان کو پھر کاٹ ڈالے اب دیکھے کچھ جاتا رہا اس کی اس تدبیر سے اس کا غصہ ۔
کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ " جسکو اس کام سے اللہ کی مدد کا یقین نہ ہو وہ خودکشی کر لے"
کیا یہ تفسیر درست ہے؟
مفتی صاحب اس آیت کی واضح اور آسان تشریح فرمادیں مہربانی ہوگی ۔
(المستفتی : محمد عفان، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں بیان کی گئی آیتِ کریمہ میں معاندین و دشمنانِ اسلام کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مَنْ كَانَ يَظُنُّ، حاصل یہ ہے کہ اسلام کا راستہ روکنے والے معاند جو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس کے دین کی مدد نہ کرے ان کو سمجھنا چاہئے کہ یہ تو جبھی ہوسکتا ہے جبکہ معاذ اللہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منصب نبوت سلب ہوجائے اور آپ پر وحی آنا منقطع ہوجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو نبوت و رسالت سپرد فرماتا ہے اور اس کو وحی الٰہی سے نوازتا ہے اس کی مدد تو دنیا و آخرت میں کرنے کا اس کی طرف سے پختہ عہد ہے اور عقلاً بھی اس کے خلاف نہ ہونا چاہئے تو جو شخص آپ کی اور آپ کے دین کی ترقی کو روکنا چاہتا ہے اس کو اگر اس کے قبضہ میں ہو تو ایسی تدبیر کرنا چاہئے کہ یہ منصب نبوت سلب ہوجائے اور وحی الٰہی منقطع ہوجائے۔ اس مضمون کو ایک فرض محال کے عنوان سے اس طرح تعبیر کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وحی کو منقطع کرنے کا کام کرنا چاہتا ہے تو کسی طرح آسمان پر پہنچے وہاں جا کر اس سلسلہ وحی کو ختم کر دے۔ اور ظاہر ہے کہ نہ کسی کا اس طرح آسمان پر جانا ممکن نہ اللہ تعالیٰ سے قطع وحی کو کہنا ممکن، تو پھر جب تدبیر کوئی کارگر نہیں تو اسلام و ایمان کے خلاف غیظ و غضب کا کیا نتیجہ ؟ یہ تفسیر بعینہ در منثور میں ابن زید سے روایت کی ہے اور میرے نزدیک یہ سب سے بہتر اور صاف تفسیر ہے ۔ (بیان القران مع تسھیل)
قرطبی نے اسی تفسیر کو ابن جعفر نحاس سے نقل کر کے فرمایا کہ یہ سب سے احسن تفسیر ہے اور حضرت ابن عباس سے بھی اس تفسیر کو نقل کیا ہے۔ اور بعض حضرات نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ سماء سے مراد اپنے مکان کی چھت ہے اور مراد آیت کی یہ ہے کہ اگر کسی معاند جاہل کی خواہش یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس کے دین کی مدد نہ کرے اور وہ اسلام کے خلاف غیظ و غضب لئے ہوئے ہے تو سمجھ لے کہ اس کی یہ مراد تو کبھی پوری نہ ہوگی اس احمقانہ غیظ و غضب کا تو علاج یہی ہے کہ چھت میں رسی ڈال کر پھانسی لے لے اور مر جائے ۔ ( مظہری/ معارف القرآن)
اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو مخاطب نہیں کیا گیا ہے بلکہ مشرکین اور دشمنان اسلام کو کہا گیا ہے، جیسا کہ درج ذیل تفسیر سے بھی معلوم ہوتا ہے ۔
بغوی نے لکھا ہے بعض روایات میں آیا ہے کہ اس آیت کا نزول بنی اسد اور بنی غطفان کے حق میں ہوا ‘ ان دونوں قبیلوں کا یہودیوں سے باہم امداد کا معاہدہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ان کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا ہمارے لئے مسلمان ہونا ممکن نہیں کیونکہ ہم کو اندیشہ ہے کہ اللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد نہیں کرے گا اور مسلمان ہونے کے بعد ہمارا یہودیوں سے معاہدہ ٹوٹ چکا ہوگا وہ ہم کو غلہ دیں گے نہ ٹھہرنے کو جگہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (مظہری)
ذکر کردہ تفصیلات سے مذکورہ عالم صاحب کی تفسیر کا نا درست ہونا واضح ہوجاتا ہے ۔ فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ربیع الاول 1440
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں