*داڑھی سے متعلق احکامات*
سوال :
مفتی صاحب آج کل داڑھی کے سلسلے میں افراط و تفریط پائی جارہی ہے بعض کافی بڑی داڑھی رکھتے ہیں اور بعضے ڈاڑھی بچہ صاف کروالیتے ہیں اور بعضے خط بنواتے ہیں اور خاص بات خط بنوانے میں رخسار کے اوپر کے بال اور گلے کے اوپر کے بال کاٹتے ہیں ۔ براہ کرم ہر جزئیہ پر روشنی ڈالیں ۔
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صحیح احادیث میں مطلقاً داڑھی بڑھانے کا حکم وارد ہوا ہے ۔
بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔
قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انہکوا الشوارب واعفوا اللحیٰ۔ (بخاري شریف ۲/۸۷۵، رقم:۵۶۶۴)
مگر بعض حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا معمول داڑھی ایک مشت سے بڑھ جانے پر کٹا دینے کا تھا، جیسے حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرھم ۔
وکان ابن عمر إذا حج، أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ ۔ (بخاري شریف، کتاب اللباس، باب تقلیم الاظفار ۲/۸۷۵، رقم: ۵۶۶۳)
عن أبي ذرعۃ کان أبو ہریرۃؓ یقبض علی لحیتہ، ثم یأخذ ما فضل عن القبضۃ ۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ۱۳/۱۱۲، رقم:۲۵۹۹۲)
عن الحسن قال کانوا یرخصون فیما زاد علی القبضۃ من اللحیۃ أن یؤخذ منہا۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ، مؤسسہ علوم القرآن بیروت ۱۳/۱۱۲، رقم:۲۵۹۹۵)
اس لئے ائمہ اربعہ امام ابو حنیفہ امام مالک امام شافعی امام احمد رحمہم اﷲ کے نزدیک ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے، اور اس سے پہلے کٹانا ناجائز اورحرام ہے ۔ ایک مشت سے زائد ہونے پر کاٹنے کی گنجائش ہے، ایک مشت سے زائد ہونے پر کٹانے کو ناجائز سمجھنا درست نہیں ہے ۔ اسی طرح داڑھی اگر اعتدال سے زیادہ بڑھ جائے تو اس کا ایک مشت کروالینا بہتر ہے ۔
واما قطع مادون ذلک فحرام اجما عاً بین الا ئمۃ رحمھم اﷲ ۔ (ج۴ ص ۳۸۰ باب اعفآء اللحی، فیض الباری)
وأما الأخذ منہا وہي دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلہا فعل الیہود ومجوس الأعاجم۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۳۹۸ زکریا)
أو تطویل اللحیۃ إذا کانت بقدر المسنون وہو القبضۃ۔ (الدر المختار۲؍۴۱۷ کراچی)
رخسار اور حلقوم (گردن) کے بال داڑھی میں داخل نہیں ہیں، لہٰذا رخسار اور حلق کے بالوں کو منڈانے کی گنجائش ہے اور رخسار کے بالوں کو گولائی میں منڈانے کی بھی گنجائش ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ نہ منڈایا جائے ۔
ولا یحلق شعر حلقہ، وعن أبي یوسفؒ لابأس بذلک، ولا بأس بأخذ الحاجبین، وشعر وجہہ ما لم یتشبہ بالمخنث، کذا في الینابیع ۔ (ہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع، زکریا قدیم ۵/۳۵۸، جدید ۵/۴۱۴)
نیچے کے ہونٹ سے ملے ہوئے بال بھی داڑھی میں داخل ہیں، لہٰذا اس کا مونڈنا بھی جائز نہیں ہے ۔ البتہ اگر اتنا بڑھ جائے کہ منہ میں آنے لگے تو اس کا برابر کرلینا درست ہے، اسی طرح اس کے بازو کے بال بھی کاٹنے کی گنجائش ہے ۔
ونتف الفنیکین بدعۃ، وہما جانبا العنفقۃ، وہي شعر الشفۃ السفلیٰ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۵۸ زکریا)
محدث دہلوی رحمہ اللہ در شرح صراط مستقیم می آرد: حلق طرفین عنفقہ لا باس بہ است۔ (داڑھی اور انبیاء کی سنتیں : ص۵۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الاول 1440
جزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا کثیرا
جواب دیںحذف کریںJazak allah
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ
جواب دیںحذف کریں