بدھ، 17 اکتوبر، 2018

ویسٹج (Vestige) نامی کمپنی کی شرعی حیثیت

*ویسٹج (Vestige) نامی کمپنی کی شرعی حیثیت*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام : موجودہ ترقی یافتہ دور میں مختلف شعبہ جات میں مختلف ایجادات ہورہی ہیں، تجارت و معیشت کی بھی آئے دن نئی نئی صورتیں سامنے آرہی ہیں، جب کوئی نئی شکل سامنے آتی ہے تو اسے اختیار کرنے سے پہلے ایک دینی مزاج رکھنے والا مسلمان اس کی شرعی حیثیت سے واقف ہونا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ جب تک اس کے جواز یا عدم جواز کا معاملہ واضح طور پر سامنے نہ ہو اسے اختیار کرنا مشکل ہوتا ہے، ایسے مسائل جو قرآن، حدیث اور کتب فقہ میں صراحتاً لکھے ہوئے ہیں ان مسائل کا حل بتانا ارباب افتاء کے لیے آسان ہوتا ہے، لیکن فی زمانہ جو نئی نئی صورتیں وجود میں آرہی ہیں، ان کا شرعی حکم بتانا، ذرا مشکل ہوتا ہے، اس لیے کہ حرام و حلال کے تعین کے لیے پہلے اس کی وجوہات کا معلوم کرنا ضروری ہوتا ہے، جس کے لیے تحقیقِ عمیق کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ بڑا نازک مرحلہ ہے، اس لیے کہ جس طرح کسی حرام کوحلال کہنا جائز نہیں، اسی طرح کسی حلال کو حرام کہنا بھی درست نہیں ہے، ایسے مسائل میں علماء اپنے کو جنت اورجہنم کے درمیان محسوس کرنے لگتے ہیں ۔

محترم قارئین! تجارت کے نت نئے طریقوں میں نیٹ ورکنگ (Net working) کا طریقہ بھی عام ہورہا ہے، ویسے یہ طریقہ بالکل نیا بھی نہیں ہے، تقریباً دس سال سے زائد عرصے سے یہ طریقہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں رائج رہا ہے، لیکن چونکہ یہ طریقہ شرعاً درست نہیں ہے، اس لئے کچھ دنوں کے بعد اس میں مختلف قسم کی تبدیلیوں کے ساتھ عوام کے سامنے لایا جاتا ہے، اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ طریقہ شرعاً درست ہے، انہیں میں (vestige) نامی ایک کمپنی بھی ہے، جس نے سوالات میں غلط بیانی سے کام لے کر دارالعلوم ندوۃ العلماء (لکھنؤ) سے جواز کا فتوی حاصل کرلیا ہے، جب کہ اس کمپنی کا طریقہ کار بھی شرعاً ناجائز ہے ۔ یہ لوگ ندوۃ العلماء کا فتوی دکھاکر عام مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں، چند فکرمند نوجوانوں نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کرائی، جس کی وجہ سے اس مسئلہ پر لکھنا ضروری ہوگیا، تاکہ عوام الناس کی اس مسئلے میں صحیح رہنمائی ہوجائے ۔

دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے اسی کمپنی کے متعلق کسی نےصحیح صورتِ حال لکھ کر سوال کیا، جہاں سے عدم جواز کا فتوی دیا گیا ہے ۔ سوال جواب بعینہ نقل کئے جاتے ہیں جس کا جواب نمبر 161755 ہے ۔
سوال :
حضرت کاروبار سے متعلق ایک سوال ہے، میں ایک کمپنی میں کاروبار کرنا چاہتا ہوں (Business) اس کمپنی کا نام ویسٹیج ہے اس کمپنی میں جوڑنے سے ایک روپیہ بھی نہیں لگتا ہے، اس کمپنی میں جڑنے کے بعد کمپنی کے دوکان سے سامان خریدنا ہے، سامان ہاتھ میں آنے کے بعد کمپنی ہمیں کچھ فیصد بونس دیتی ہے اور ہم جتنے لوگ کو اپنے نیچے جوڑیں گے اتنا ہمارا بونس بڑھتا جائے گا اور ہم سے نیچے والا وہ بھی جتنے لوگ کو جوڑے گا اس کا بھی ہمیں کچھ فیصد بونس ملے گا ۔ اس کمپنی میں صرف لوگوں کو کمپنی سے جوڑکر سامان خریدوانا ہے کمپنی خود اپنے آپ کھاتے میں بونس ڈال دے گی، جتنا اپنے سے نیچے والے کو سامان خریداری کروائیں گے اتنا ہمیں فائدہ ہوگا، اس کمپنی کو دوبئی کی سرکار نے حلال کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا ہے ۔ یہ کاروبار حلال ہے یا حرام؟ اگر حلال ہے تو حدیث میں کہاں پر لکھا ہے؟ اور اس میں ہم سے نیچے والا کو بھی فائدہ ہے اگر وہ اپنے سے نیچے کیسی کو جوڑے گا تب۔کمپنی کا نام انگریزی میں ہے (Vestige)
جواب :
بسم الله الرحمن الرحيم
صورتِ مسئولہ میں اس کمپنی کے تعلق سے ذکر کردہ احوال سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نیٹ ورک مارکیٹنگ سسٹم ہے جس میں نیچے تک جوڑنے والے کی خریداری سے کچھ نہ کچھ حصہ اوپر(سب سے پہلے ممبر بنانے) والے کو ملتا رہتا ہے اور یہ طریقہ اصولِ اجارہ کے خلاف ہے، لہٰذا اس طریقہ پر نفع کمانا درست نہیں ۔

اسی کے ساتھ اس طرح کی کمپنیوں میں مزید شرعی قباحتیں موجود ہوتی ہیں، اگر آپ کسی ایسی کمپنی سے جڑے ہوئے ہیں یا جڑنا چاہتے ہیں جن میں درج ذیل خرابیوں میں سے ایک خرابی بھی موجود ہو تو آپ اس سے قطعاً دور ہوجائیں ۔

۱) اگر اس طریقہٴ کار کو بیع کہا جائے تو چونکہ اس کے اندر خریداری کے لیے ممبر بننا شرط ہے جو مقتضائے عقد کے خلاف ہے؛ لہٰذا یہ بیع کے فاسد ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے ۔ وکل شرط لا یقتضیہ العقد وفیہ منفعة لأحد المتعاقدین أو للمعقود علیہ وهو من أهل الاستحقاق یفسدہ (هدایہ: ۳/۵۹)

۲) اس جیسی کمپنیوں میں خریداری مقصود ہی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی خریدنے والے کو کمپنی کی طرف سے مختلف متعین سامانوں کو خریدنے کی ضرورت ہوتی ہے؛ بلکہ اصل مقصد ممبر بننا ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ کوئی ایک متعین سامان لینا ضروری ہوتا ہے، اس سے کم یا زیادہ کا یا بالکل نہ لینے کا اختیار نہیں ہوتا ہے جو شرائطِ فاسدہ اور عدم تراضی کی وجہ سے ناجائز ہے ۔ یٰاَیُّها الَّذِینَ آمَنُوْا لاَتَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلاَّ اَن تَکُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ (البقرة: ۱۸۸)

۳) اس کمپنی سے اول مرحلہ میں دیئے جانے والے سامانوں کی قیمت ان کے بازاری ریٹوں سے کئی گنا زیادہ لگائی جاتی ہے جو غبن فاحش کی وجہ سے ناجائز ہے۔

۴) اس کمپنی سے حصولِ منافع کے لیے ممبرسازی کرنا ضروری ہے جس کو اگر شرکت کا معاملہ کہا جائے تو یہ شرکت کی تینوں قسموں : شرکتِ عنان، شرکتِ مفاوضہ یا مضاربت کسی میں بھی داخل نہیں ہے۔

۵) اور اگر اس کو اجارہ کہا جائے تو اس کی شرائط کی صحت میں سے اجرت اور منفعت کا معلوم ہونا ہے، اور مذکورہ طریقہٴ کار  میں کوئی منفعت یعنی محنت اور عمل کی مقدار متعین نہیں ہوتی ہے کہ مثلاً آپ کو اتنے دن تک ممبر سازی کے لیے محنت کرنی ہے، وشرطها (أي الإجارة) کون الأجرة والمنفعة معلومتین․․․ ویعلم النفع ببیان المدّة کالسّکنی والزراعة مدّة کذا أيّ مدّة کانت وإن طالت (در مختار: ۹/۷، زکریا دیوبند)

۶) اور اس سے ملنے والی منفعت کو دلّالی کی اجرت بھی نہیں کہہ سکتے ہیں؛ اس لیے کہ جن دو ممبروں کو وہ خود خریداری کرائے گا، وہاں اس بات کو تسلیم کیا جاسکتا ہے؛ لیکن جو منفعت اس کو ممبروں کے ممبروں کی خریداری پر ملے گی اس کو کیونکر دلّالی کی اجرت کہا جاسکتا ہے؟

۷) اس میں منفعت ممبرسازی پر موقوف ہوتی ہے اور ممبرسازی ایک مبہم اور نامعلوم امر ہے؛ کیونکہ اس کمپنی کے شریک کے لیے یہ یقینی بات نہیں ہے کہ اگر وہ کوشش و محنت کرے تو وہ ممبر بنا ہی لے؛ بلکہ اکثر ممبران ممبرسازی میں ناکام اور اس سے عاجز ہوجاتے ہیں۔ اور کسی مبہم اور نامعلوم چیز پر نفع کو معلق کرنا ہی جوا اور قمار ہے جو نص قطعی سے حرام ہے۔ یٰاَیُّها الَّذِینَ آمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالاَنصَابُ وَالاَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَo (المائدة:۹۰)

۸) اور پھر جو کمیشن اعلیٰ ممبر کو اس کے ممبروں کے ممبروں (لا الی النهایہ) کی جمع کردہ رقم میں سے دیا جاتا ہے، وہ اس کو بغیر محنت و مشقت کے ملتا ہے بلکہ اگر اس کو معلوم نہ ہو تب بھی ملتا ہے جو بالکل ناجائز ہے ۔

۹) ممبری فیس ناجائز ہے ۔

١٠) ہرسال تجدید شرکت کی فیس لینا ناجائز ہے ۔

۱۱) ممبرسازی نہ کرنے کی صورت میں سامان سے زائد جمع شدہ رقم کو ضبط کرلینا ناجائز ہے ۔

۱۲) مذکورہ کمپنی سے حصولِ منافع کے لیے ہر ماہ کمپنی سے سو روپئے (یا متعینہ رقم) کے سامان کو خریدنے کی شرط لگانا بھی ناجائز ہے ۔ (۳۳۸/ن=۳۶۵/ن، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)

امید ہے کہ درج بالا تفصیلات پڑھنے کے بعد ایک عام مسلمان بھی اس طرح کی کمپنیوں کی شرعی حیثیت سمجھ کر ان سے اپنے آپ کو دور رکھ سکتا ہے ۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو شریعتِ مطھرہ کے قائم کردہ قوانین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین

2 تبصرے:

  1. انصاری محمود25 نومبر، 2020 کو 3:51 PM

    جزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا

    جواب دیںحذف کریں
  2. انصاری محمود25 نومبر، 2020 کو 3:54 PM

    الحمد للہ بڑا ہی اطمینان بخش جواب ملا
    جزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا

    جواب دیںحذف کریں