بدھ، 17 اکتوبر، 2018

گستاخِ رسول کی نماز جنازہ اور اس کی تدفین کا حکم

*گستاخِ رسول کی نماز جنازہ اور اس کی تدفین کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ایک بدبخت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور ازواج مطھرات کی شان میں سخت گستاخی کی، اسی کے ساتھ اس شخص کے اور بھی کفریہ عقائد ہیں مثلاً احادیث مبارکہ کا انکار کرنا وغیرہ
پوچھنا یہ ہے کہ اگر ایسے شخص کا اسی حالت میں انتقال ہوجائے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟ کیا کفن سنت کے مطابق دیا جائے گا؟ اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا؟
اور اگر کوئی اس کی نماز جنازہ پڑھا دے اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ براہ کرم مدلل اور مفصل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : سیدالطاف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں بیان کی گئیں تمام باتیں اگر بالکل درست ہیں اور ایسا شخص بغیر توبہ کے مرجائے تو اس پر شرعاً مرتد اور کافر کا حکم لاگو ہوگا۔

اسی طرح منکرِ حدیث بھی علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک متفقہ طور پر کافر ہے، اس لئے کہ حدیث کا انکار دراصل قرآنِ کریم کا انکار ہے۔ (1)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ ۔ (التوبۃ :۸۰)
ترجمہ : اور ان میں سے جو کوئی شخص مرجائے آپ اس پر کبھی نماز نہ پڑھیں اور اس کی قبر پر کھڑے نہ ہوں، بیشک ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ اس حال میں مرگئے کہ نافرمان تھے ۔

اس آیت کے تحت امام جصاصؒ تفسیر "احکام القرآن" میں لکھتے ہیں :
وحظر ھا (ای الصلوٰۃ) علی موتی الکفار…الخ
ترجمہ : اور اس میں کفار کی نمازِ جنازہ پڑھنے کی ممانعت ہے۔

قرآن پاک کی مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کسی کافر و مرتد کے لیے مغفرت کی دعا کرنا یا اس پر نمازِ جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا ایسےشخص کو کپڑے میں لپیٹ کر کسی گڑھے میں دفن کردیا جائے گا، نہ نماز پڑھی جائے گی اور نہ ہی سنت کے مطابق تجہیز وتکفین کی جائے گی۔ (2) ایسے شخص کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی درست نہیں ہے ۔ (3)

کفایہ شرح ہدایہ میں ہے :
لان الموضع الذی فیہ الکافر ینزل فیہ اللعن والسخط والمسلم یحتاج إلی نزول الرحمۃ فی کل ساعۃ فینزہ قبرہ من ذلک کذا فی المحیط۔ (الکفایۃ مع فتح القدیر، باب الجنائز، فصل فی حمل الجنازۃ :۲؍۹۵۔ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

ترجمہ : چونکہ کافر کی قبر پر اﷲ تعالیٰ کی  ناراضگی اور لعنت برستی رہتی ہے اور مسلمانوں کو ہر لمحہ رحمت الٰہی کے نزول  کی ضرورت ہے، اس لیے مسلمانوں کے قبرستان کو اس (کافروں کے دفن) سے پاک رکھا جائے۔ تاہم اگر مسلمانوں کے قبرستان کے علاوہ کسی دوسری جگہ تدفین مشکل ہو یا فتنہ و فساد کا اندیشہ ہوتو قبرستان کے کنارے کے حصے میں دفن کردیا جائے، جہاں قریب میں قبریں موجود نہ ہوں۔ (4)

سوال نامہ کا سب اہم حصہ یہ ہے کہ اس علم کے باجود کہ مذکورہ شخص منکرِ حدیث، گستاخِ رسول اور کفریہ عقائد کا حامل تھا، اگر لوگوں نے اس کو مسلمان سمجھا اور مسلمان سمجھ کر ہی اس کا جنازہ پڑھا تو ان تمام لوگوں کو جو جنازے میں شریک ہوں گے، ان سب پر کفر کا حکم ہوگا، کیونکہ ایک مرتد کے عقائد کو اسلام سمجھنا کفر ہے، اس لیے ایسے لوگوں کا ایمان جاتا رہے گا اور نکاح بھی باطل ہوجائے گا، ایسے لوگوں پر تجدیدِ ایمان و نکاح لازم ہوگا۔ (5)

1) وَمَنْ أَنْكَرَ الْمُتَوَاتِرَ فَقَدْ كَفَرَ، وَمَنْ أَنْكَرَ الْمَشْهُورَ يَكْفُرُ عِنْدَ الْبَعْضِ۔(الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٦٥)

وقال العلامۃ القرطبی رحمة اللہ علیہ فی تفسیرہ تحت قولہ تعالیٰ (وماینطق عن الھوی) وفیہ ایضا دلالة علی ن السنة کالوحی المنزل فی العمل (تفسیر قرطبی : ٨٥١٧)

2) فنقول لایصلی علی الکافر لان الصلاة علی المیت دعاء واستغفار لہ والاستغفار للکافر حرام۔ (المحیط البرھانی : ٣/٨٢)

(قَوْلُهُ وَشَرْطُهَا إسْلَامُ الْمَيِّتِ وَطَهَارَتُهُ) فَلَا تَصِحُّ عَلَى الْكَافِرِ لِلْآيَةِ {وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا} [التوبة: 84]۔ (البحرالرائق : ٢/١٩٣)

قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: (وَشَرْطُهَا) أَيْ شَرْطُ الصَّلَاةِ عَلَيْهِ (إسْلَامُ الْمَيِّتِ وَطَهَارَتُهُ) أَمَّا الْإِسْلَامُ فَلِقَوْلِهِ تَعَالَى {وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا} [التوبة: 84] يَعْنِي الْمُنَافِقِينَ، وَهُمْ الْكَفَرَةُ؛ وَلِأَنَّهَا شَفَاعَةٌ لِلْمَيِّتِ إكْرَامًا لَهُ وَطَلَبًا لِلْمَغْفِرَةِ، وَالْكَافِرُ لَا تَنْفَعُهُ الشَّفَاعَةُ، وَلَا يَسْتَحِقُّ الْإِكْرَامَ۔ (تبیین الحقائق : ١/٢٣٩)

3) والمرتد إذا قتل یحفرلہ حفیرۃ، ویلقي فیہا کالکلب، ولایدفع إلی من انتقل إلی دینہم لیدفنوہ۔ (الدر مع الرد : ۳/۱۳۴)

4) اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمَحْظُوْرَاتِ ۔  (الأشباہ والنظائر : ص/۳۰۷)

مَنْ اعْتَقَدَ الْحَرَامَ حَلَالًا، أَوْ عَلَى الْقَلْبِ يَكْفُرُ أَمَّا لَوْ قَالَ لِحَرَامٍ: هَذَا حَلَالٌ لِتَرْوِيجِ السِّلْعَةِ، أَوْ بِحُكْمِ الْجَهْلِ لَا يَكُونُ كُفْرًا، وَفِي الِاعْتِقَادِ هَذَا إذَا كَانَ حَرَامًا لِعَيْنِهِ، وَهُوَ يَعْتَقِدُهُ حَلَالًا حَتَّى يَكُونَ كُفْرًا أَمَّا إذَا كَانَ حَرَامًا لِغَيْرِهِ، فَلَا وَفِيمَا إذَا كَانَ حَرَامًا لِعَيْنِهِ إنَّمَا يَكْفُرُ إذَا كَانَتْ الْحُرْمَةُ ثَابِتَةً بِدَلِيلٍ مَقْطُوعٍ بِهِ أَمَّا إذَا كَانَتْ بِأَخْبَارِ الْآحَادِ، فَلَا يَكْفُرُ كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٧٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 محرم الحرام 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں