*دادا/ نانا کی میراث میں پوتے/نواسے کا حصہ*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ
1) والد کی زندگی میں بیٹا/ بیٹی کا انتقال ہوجائے تو دادا/ نانا کے مال میں سے پوتے/نواسے کو حصہ ملےگا؟ اور ملے گا تو کتنا حصہ ملے گا؟
2) والد کے انتقال کے بعد بیٹا/ بیٹی کا انتقال ہوا جبکہ ابھی تک ترکہ نہیں ہوا، اس صورت میں پوتے/نواسے کو حصہ ملے گا نہیں اور اگر ملے گا تو کتنا حصہ ملے گا؟
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : والد کی زندگی میں بیٹا/بیٹی کا انتقال ہوجائے تو پوتے/نواسے دادا/نانا کی وراثت کا حقدار نہیں ہوں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام بلکہ کسی بھی مذہب و ملت میں میراث کی تقسیم کا معیار حاجت و ضرورت پر نہیں ہے، بلکہ رشتہ داری و قرابت کے درجات پر ہے، یعنی قریب کے ہوتے ہوئے بعید کو محروم سمجھا جاتا ہے، لہٰذا حقیقی بیٹوں اور بیٹیوں کے ہوتے ہوئے ان کے حصہ میں کمی کرکے پوتی پوتا اور نواسی نواسہ کو دینا ضابطۂ شریعت کے خلاف ہوگا، رہا یتیموں کی پرورش کا مسئلہ تو شریعت نے دادا/ نانا کو اس کا پورا اختیار دیا ہے کہ اپنی زندگی میں پوتی، پوتا اور نواسی، نواسہ کو اتنا دے کر مالک بنا سکتے ہیں جتنا دوسری اولاد کو میراث میں مل سکتا ہے، یا اس سے زیادہ بھی دے سکتے ہیں، اس میں شریعت کی طرف سے کوئی ممانعت نہیں ہے۔
2) اگر والد کے انتقال کے بعد بیٹا/ بیٹی کا انتقال ہوا ہے تو جو حصہ بیٹا/بیٹی کو ملنے والا ہوگا وہ ان کی اولاد میں شریعت کے اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
أخرج البیہقی فی سننہ عن زید بن ثابت وعلي و بن مسعود حدیثا طویلاً وطرفہ: إذا ترک أبناء و ابن ابن فلیس لابن الابن شیئ۔ (سنن کبریٰ للبیہقی، رقم: ۱۲۶۲۹)
فالأقرب یحجب الأبعد کالابن یحجب أولاد الابن۔ (الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الفرائض، الباب الرابع فی الحجب، ۶/۴۴۴)
ویحجب بالابن أی ولد الابن یحجب بالابن ذکورہم و إناثہم فیہ سواء۔ (البحر الرائق : ۹/۳۷۵)
الأقرب فالأقرب یرجحون بقرب الدرجۃ أعنی اولٰہم بالمیراث جزء المیت أی البنون ثم بنوہم وإن سفلوا۔ (سراجی :۲۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
3 شوال المکرم 1439
جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریں