سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ ہمارے شہر میں کئی مقامات پر ہفتہ واری درس قرآن کے پروگرام ہوتے ہیں جن میں ہزاروں عورتیں شرکت کرتی ہیں، کیا ایسے پروگرام مسجد میں منعقد کیے جاسکتے ہیں؟ کیا مسافر عورتیں نماز کیلئے مسجد جا سکتی ہیں؟ آج عورتیں کلی طور سے مساجد کے اعمال سے ناواقف ہوتی ہیں، باہر شہروں میں عورتوں کو ہر جگہ جانے کا اختیار ہے اور جاتی بھی ہیں جیسے پکنک، شاپنگ مال، ریسٹورنٹ، کانفرنس وغیرہ.............
تو مساجد میں علیحدہ انتظام کرنا کہ عورتیں وقتاً فوقتاً مساجد کے اعمال میں شریک ہوں تاکہ انہیں بھی دینی مجالس میں شرکت کا موقع ملے کیسا ہے؟ یا ایسا انتظام کیوں نہیں کیا جاتا؟ جبکہ آج عورتیں ہر جگہ نظر آتی ہیں سوائے مسجد کے...
آپ اس معاملے میں راہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : احمد طلحہ، مالیگاؤں)
----------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت مطھرہ میں دینی تعلیم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض قرار دیا گیا ہے.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث : 224)
چنانچہ اس فریضے کی ادائیگی کے لئے ہر زمانہ میں خواتین اسلام کی دینی تعلیم کے سلسلے میں مختلف کوششیں کی جاتی رہی ہیں، جس میں سے ایک کوشش یہ بھی ہے کہ انکے لئے پردے کے مکمل انتظام کے ساتھ دینی مجالس انعقاد کیا جائے جس میں ان کے لیے دین سیکھنے سکھانے کا نظم ہو، جو کہ ایک مستحسن عمل ہے، جس کا ثبوت درج ذیل روایت سے ملتا ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسوال اللہ ! زیادہ تر صرف مرد ہی آپ کی باتیں سنتے ہیں۔ اس لیے آپ ﷺ ہم عورتوں کے لیے ایک دن خاص کردیجیے۔ جس میں ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفادہ کرسکیں۔ آپ ﷺ نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور ان کے لیے ایک دن خاص کردیا. عورتیں اس دن اکٹھا ہوئیں اور آپ ﷺ نے ان کے پاس جاکر انھیں وعظ و تلقین کی۔ (بخاری: ۱۰۱، ۹۴۲۱،۰۱۳۷)
خواتین کے مسجد جانے کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اصلاً خواتین کا مسجد میں داخلہ ممنوع نہیں ہے، بلکہ ان کا بلاعذر شرعی گھر سے نکلنا ممنوع ہے۔ (1)
صورتِ مسئولہ میں خواتین کے درس قرآن کا انتظام مسجد میں بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن غالباً آپ یہاں ایک بات بھول رہے ہیں وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مہینہ میں چند دن خواتین کے لئے ناپاکی کے مقرر کئے ہیں جس کی وجہ سے ایسی حالت میں ان کا مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے، لہٰذا اس کی وجہ سے کیا مسائل درپیش آسکتے ہیں اس کو آپ خود سمجھ سکتے ہیں، چنانچہ مسجد کے بجائے کسی ہال وغیرہ میں اس کا انتظام کرنا زیادہ مناسب ہوگا اور یہ بھی عمل بلاناغہ چلتا رہے گا۔
ومنہا أن لا تدخل المسجد، قال علیہ السلام: لا أحل المسجد لحائض ولا جنب۔ (سنن أبي داؤد ۲۰۱، المحیط البرہاني ۱؍۴۰۳، مستفاد: صحیح مسلم ۱؍۲۹۱)
ولا تدخل مسجد الجماعۃ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱؍۴۸۱ زکریا)
2) مسافر عورت کے لیے بھی مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے جانا مکروہ ہے، البتہ اگر راستے کی کسی مسجد میں عورتوں کے لئے علاحدہ انتظام ہو (جیسا کہ ہائی وے کی بعض مساجد میں انتظام ہوتا ہے) اور وہاں اپنی طبعی حاجت کے لیے اپنے محرم کے ساتھ رکے اور نماز کا وقت ہوتو تنہا نماز ادا کرسکتی ہے، اس لئے کہ باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ امام عورتوں کی امامت کی نیت کرے۔
والفتویٰ الیوم علی الکراھۃ فی کل الصلوات لظھور الفساد کذا فی الکافی وھو المختار کذا فی التبیین. (عالمگیری ج۱ ص ۵۶ باب الا مامۃ)
3) خواتین کے پنج وقتہ نمازوں اور جمعہ و عیدین کی نماز باجماعت میں شرکت سے متعلق مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری علیہ الرحمہ کا مفصل مدلل فتوی فتاوی رحیمیہ میں موجود ہے، جسے کچھ حذف و اضافہ، تشریح و تسہیل کے ساتھ بندہ نقل کرتا ہے، تاکہ زیر بحث مسئلہ عوام الناس پر بھی مکمل طور پر واضح ہوجائے۔
بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت تھی، وہ زمانہ خیر القرون کا تھا فتنوں سے محفوظ تھا، رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم بہ نفس نفیس تشریف فرما تھے، وحی نازل ہوتی تھی، نئے نئے احکام آتے تھے، نئے مسلمان تھے نماز وغیرہ کے مسائل سیکھنے کی ضرورت تھی اور سب سے بڑھ کر حضور اقدس صلی ﷲ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہوتا تھا، ان تمام باتوں کے باوجود عورتیں نماز باجماعت پڑھنے کی مکلف نہیں تھیں صرف اجازت تھی اور افضل یہی تھا کہ عورتیں مکانوں میں چھپ کر اور تاریک تر کمرے میں (جہاں اجنبی مردوں کی بالکل نظر نہ پڑ سکے) نماز پڑھیں، اس سلسلے میں چند روایات ملاحظہ فرمائیں :
1) عن ام سلمۃ رضی اﷲ عنہا عن رسول اﷲ ﷺقال خیر مساجد النساء قعر بیو تھن۔رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر… الی ۔وقال الحاکم صحیح الا سناد۔
ترجمہ : حضرت ام سلمہ رسول کریم ا سے رویت کرتی ہیں ، کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ عورتوں کی سب سے بہترین مسجد ان کے گھر کی گہرائی ہے (یعنی سب سے زیادہ بند تاریک کوٹھری)(الترغیب والترھیب ج۱ ص ۱۸۸ للعلامۃ المنذری رحمہ اﷲ )(زجاجۃ المصابیح ج۱ ص ۳۱۳ باب الجماعۃ وفضلھا)
2) عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ عن رسول اﷲ ﷺالمرائۃ عورۃ وانھا اذا خرجت من بیتھا استشر فھا الشیطان ، وانھا لا تکون اقرب الی اﷲ منھا فی قعر بیتھا ۔ رواہ الطبرانی فی الا وسط ورجالہ‘ رجالہ الصحیح۔
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما حضور اکرمﷺسے روایت کرتے ہیں کہ عورت چھپانے کی چیز ہے وہ جب گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے (یعنی لوگوں کے دلوں میں اس کے متعلق گندے خیالات اور وساوس ڈالتا ہے)ا ور عورت اپنے گھر کی سب سے زیادہ بند کوٹھری ہی میں ﷲ سے بہت قریب ہوتی ہے۔ (الترغیب والترہیب ج۱ ص ۱۸۸ باب الجماعۃ)
3) عن ابن مسعود رضی ﷲ عنہ قال ما صلت امرأۃ من صلوٰۃ احب الی اﷲ من اشد مکان فی بیتھا ظلمۃ۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر۔
ترجمہ : عورت کی سب سے زیادہ محبوب نماز خدا کے نزدیک وہ نماز ہے جو اس نے بہت ہی تاریک کوٹھری میں پڑھی ہو۔ (التر غیب والترہیب ج۱ ص ۱۸۹)
4) عن ام سلمۃ رضی اﷲ عنہا قالت قال رسول اﷲ ﷺصلوٰۃ المرأۃ فی بیتھا خیر من صلوٰتھا فی حجرتھا و صلاتھا فی حجرتھا خیر من صلاتھا فی دارھا وصلاتھا فی دارھا خیر من صلوٰتھا فی مسجد قومھا۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط باسناد جید۔
ترجمہ : حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: عورت کی نماز بند کوٹھری میں کمرہ کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرہ کی نماز گھر (کے احاطہ) کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطہ کی نماز محلہ کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے۔ (الترغیب والترھیب : ج۱ ص۱۸۸)
5) حضرت ام حمید رضی ﷲ عنہا نے بارگاہ نبوی ﷺ میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ ﷺ نے فرمایا، تمہارا شوق بہت اچھا ہے (اور دینی جذبہ ہے) مگر تمہاری نماز اندورنی کوٹھری میں کمرہ کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرہ کی نماز گھر کے احاطہ کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کی احاطہ کی نماز محلہ کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے اور محلہ کی مسجد کی نماز میری مسجد (یعنی مسجد نبوی) کی نماز سے بہتر ہے، چنانچہ حضرت ام حمید رضی ﷲ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کمرے (کوٹھے) کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھاکرتی تھیں ، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا اور اپنے خدا کے حضور میں حاضر ہوئیں۔ (الترغیب والترہیب ص ۱۸۷جلد اول)
ایک بار پھر اس بات کا اچھی طرح سے استحضار ہوجائے کہ زمانہ نبوی میں عورتوں کا نماز کے لئے مسجد جانا صرف مباح (جائز) تھا، سنت، واجب یا فرض نہیں تھا، بہتر اور افضل ان کے لیے یہی تھا کہ وہ گھر میں نماز پڑھیں، جیسا کہ ذکر کردہ روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کے زمانہ میں عورتوں میں کچھ آزادی اور خرابی رونما ہوئی تو حضرت عمر فاروق ؓ نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکا، حضرات صحابہ رضوان ﷲ علیہم اجمعین نے اس سے اتفاق کیا، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا نے فقیہانہ جواب دیا :
لو ادرک رسول اﷲ ﷺما احدثت النساء منعھن المسجد کما منعت نسآء بنی اسرائیل۔
ترجمہ : اگر رسول ﷲ ﷺ عورتوں کی یہ حالت دیکھتے تو ان کو مسجد آنے سے ضرور روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کومسجد آنے سے ممانعت کر دی گئی تھی۔ (باب خروج النسآء الی لمساجد باللیل والغلس بخاری شریف ص۱۲۰ج۱)(مسلم شریف ص ۱۸۳ ج۱) (زجاجۃ المصابیح ص ۳۱۳ ج۱)
عنایہ شرح ہدایہ میں ہے :
ولقد نھی عمر رضی اﷲ عنہ النساء عن الخروج الی المساجد فشکون الی عائشۃ رضی اﷲ عنہا فقالت لو علم النبی ﷺماعلمہ عمر رضی اﷲ عنہ مااذن لکن فی الخروج فاحتج بہ علماء نا ومنعوا الشواب عن الخروج مطلقاً۔
ترجمہ : حضرت عمرؓ نے عورتوں کو مسجد آنے سے منع فرمایا تو عورتوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے اس کی شکایت کی، حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا نے فرمایا : حضرت عمر ؓ کو جن امور کا علم ہوا اگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے یہ امور ظاہر ہوتے تو تم کو (برائے نماز) نکلنے کی اجازت مرحمت نہ فرماتے، ہمارے علماء نے اسی سے استدلال کیا ہے اور نوجوان عورتوں کو مطلقاً نکلنے سے منع فرمایا۔ (عنایۃ شرح ہدایہ ص ۳۶۵ ج۱ مع فتح القدیر ،باب الا مامۃ)
ذیل میں ہم بعض اجل صحابہ، تابعین اور ائمہ دین کے اقوال و افعال ذکر کرتے ہیں، جنہوں نے ظہورِ فسادِ زمانہ کی وجہ سے عورتوں کو نماز کے لیے مسجد جانے سے منع فرمایا۔
فقیہ الامت حضرت عبدﷲ بن مسعود ؓ جمعہ کے روز عورتوں کو مسجد سے نکال دیتے اور فرماتے اپنے گھر جاؤ تمہارے گھر تمہارے لئے بہتر ہیں۔
عن ابی عمرو الشیبانی انہ رأی عبد اﷲ یخرج النساء من المسجد یوم الجمعۃ و یقول اخرجن الی بیوتکن خیر لکن رواہ الطبرنی فی الکبیر باسناد لابأس بہ (الترغیب والترہیب ص ۱۹۰ج۱)
ابراہیم نخعی ؒ فرماتے ہیں کہ عیدین میں عورتوں کا نکلنا مکروہ ہے۔
حدثنا ابوبکر قال حدثنا حریر عن منصور عن ابراہیم قال یکرہ خروج النساء فی العیدین. (باب من کرہ خروج النسآء الی العید مصنف ابن ابی شیبہ ص ۱۸۳ ج ۲)
حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما اپنے گھر کی مستورات کو عیدین کی (نماز کے لئے) نہیں نکالتے تھے۔
حدثنا وکیع عن سفیان عن عبدﷲ بن جابر عن نافع عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ انہکان لا یخرج نساءہ فی العیدین
(حوالۂ بالا)
ہشام اپنے والد عروہ (مشہور تابعی) کا عمل بیان کرتے ہیں کہ آپ اپنے گھر کی کسی عورت کو(عید گاہ) نہیں جانے دیتے تھے۔
حدثنا ابو ا سامۃ عن ہشام بن عروۃعن ابیہ انہ کان لا یدع امرأۃً من اھلہ تخرج الی فطر ولا الی الٰاضحیٰ. (حوالۂ بالا)
امام طحاوی رحمہ ﷲ فرماتے ہیں کہ عید گاہ میں عورتوں کا جانا شروع اسلام میں تھا جب کہ مسلمان کم تھے تاکہ ان سے اہل اسلام کی کثرت معلوم ہو اور دشمن خوفزدہ ہو، آج یہ صورت حال نہیں ہے، لہذا یہ حکم بھی نہ ہوگا۔ (عینی شرح بخاری ص ۳۹۴ ج۳ باب خروج النسآء والحیض الی المصلی ) (مظاہر حق ج۱ ص ۴۶۵)
ملا علی قاری رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں : حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہما کا اپنے صاحبزادے پر خفا ہونا تو یہ اس لئے تھا کہ حضرت ابن عمر ؓ نے حضور کا فرمان نقل کیا ’’ لا یمنعن رجل اھلہ ‘ ان یا تو المساجد ‘‘ (یعنی اگر عورتیں مسجد آنے کے لیے کہیں تو انھیں منع نہ کیا جائے) اس پر صاحبزادے کا یہ کہنا ’’ فانا نمنعھن‘‘ (ہم منع کریں گے) اس سے نص کے ساتھ صورۃً معارضہ (اعتراض) لازم آرہا تھا (اس بنا پر حضرت ابن عمر بہت ہی غصہ اور خفا ہوئے) جس طرح امام ابو یوسف رحمہ ﷲ نے حدیث بیان فرمائی ۔ کان رسول اﷲ ﷺیحب الدباء ً(حضور اقدسﷺلوکی (کدو) پسند فرماتے تھے) ایک شاگرد نے کہا۔ انا لا احبہ‘ (میں تو اسے پسند نہیں کرتا) اس پر امام ابو یوسف ؒ نے تلوار نکال لی اور فرمایا کہ تجدید ایمان کر ورنہ قتل کردوں گا. یہاں بھی حدیث کے ساتھ صورۃً معارضہ لازم آراہا تھا، ورنہ لوکی (کدو) پسند نہ کرنا ایسا جرم نہیں کہ قتل کر دیا جائے، اسی طرح عورتوں کو منع کرنا ایسا جرم نہیں تھا کہ قطع تعلق کرنا واجب ہو، ورنہ پھر اس کا کیا مطلب کہ خود حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہما جمعہ کے روز عورتوں کو کنکریاں مار کر مسجد سے نکلنے پر مجبور کرتے تھے۔
(قولہ وتقول وﷲ لنمنعھن) قال الطیبی یعنی انا آتیک بالنص القاطع وانت تتلقاہ بالرای کأن بلا لاً لما اجتھد ورأی من النساء وما فی خروجھن الی المساجد من المنکراقسم علی منعھن فردہ ابوہ‘ بان النص لا یعارض بالرأی… ونظیرہ‘ ماوقع لا بی یوسف ؒ حین روی انہ علیہ السلام کان یحب الدباء فقال رجل انا ما احبہ‘ فسل السیف ابویوسفؒ وقال جدد الا یمان والا لا قتلنک (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج۳ ص ۶۶ باب الجماعۃ وفضلھا ۔ مطبوعہ ملتان)
عید گاہ جانے کے سلسلے میں جن روایات میں امر (حکم) کا صیغہ وارد ہے اور جن سے وہ حضرات استدلال کرتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ امر کا صیغہ تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے، کبھی وجوب کے لئے ہوتا ہے جیسے اقیموا الصلوٰۃ. اور کبھی استحباب کے لئے ہوتا ہے جیسے فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر. اور کبھی اباحت یعنی صرف جواز کے لئے ہوتا ہے، جیسے واذا حللتم فاصطا دوا۔ اب دیکھنا چاہئے کہ یہاں کیا مراد ہے وجوب تو یقیناً مراد نہیں کہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں کہ عیدین وغیرہ میں عورتوں کا جانا واجب ہے، اور استحباب بھی مراد نہیں اس لئے کہ آنحضرت ﷺ نے کوٹھری کی نماز کو مسجد نبوی کی نماز سے بدرجہا افضل بتایا ہے اور اس میں عیدین کا استثناء نہیں ہے. مساجد گھروں سے قریب ہوتی ہیں، پھر بھی گھر کی نماز افضل ہے، اور عیدگاہ تو شہر سے باہر اور دور ہوتی ہے. دوم یہ کہ نماز پنجگانہ وجمعہ فرض ہیں، جب اس کے لئے مسجد میں آنا افضل نہیں تو عیدین کی نماز میں حاضر ہونا کیونکر افضل ہوگا؟ پس اس جگہ امر اباحت و رخصت کے لئے ہوا، اور وقتی طور پر مصلحتاً حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو عید گاہ میں جمع فرمایا تھا، اس سے وجوب اور استحباب ثابت نہیں ہوسکتا. (کفایت المفتی ج۵ ص ۴۲۱ ملخصاً) اگر مستحب بھی مان لیا جائے تب بھی ظہور فساد زمانہ کی وجہ سے قابل ترک ہوگا، فقہ کا قاعدہ ہے. ترک المکروہ اولیٰ بادراک الفضیلۃ لان ترک المکروہ اھم من فعل المسنون۔ (کبیری ص ۳۶۵)
حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اور ان عذروں میں سے جن کی وجہ سے نماز باجماعت میں حاضر نہ ہونا جائز ہے فتنہ کا خوف ہے، جیسے کوئی عورت خوشبو لگائے، اور آنحضرت ﷺ کے اس فرمان’’ اذا استاذنت الخ‘‘ (یعنی جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ اس کو منع نہ کرے) اور جمہور صحابہ کے فیصلہ (ان حضرات کا یہ فیصلہ ہے کہ عورتوں کو اب مسجد میں آنے سے ممانعت کی جائے) میں تضاد نہیں ہے، اس لئے کہ وہ غیرت جو محض تکبر سے پیدا ہو تو اِس غیرت کی بنا پر عورتوں کو روکا جائے تو یہ غیرت ناجائز ہے، رہی وہ غیرت جو فتنہ کے خوف سے پیدا ہو اور اس غیرت کی بنا پر عورتوں کو روکا جائے تو یہ غیرت جائز بلکہ مستحسن ہے (اور صحابہؓ نے اسی فتنہ کے خوف کی بنا پر عورتوں کو روکنے کا فیصلہ کیا) اور حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان الغیرۃ غیرتان الخ (یعنی غیرت دو قسم کی ہوتی ہے، ایک وہ غیرت جو تکبر کی وجہ سے ہو، اور دوسری اللہ کے خوف کی وجہ سے ہوتی ہے) کا یہی مقصود ہے، اور یہی حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کی روایت ان النساء احدثن الخ کا مصداق ہے۔ (حجۃ اﷲ البالغہ ج۲ ص ۹۰ الجماعۃ من الحرج الخوف الفتنۃ) (احیاء العلوم ج۲ ص ۴۸)(اصح السیر ج ۲ ص ۵۸۹)
شارح بخاری علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس زمانہ کی وہ بدعات و منکرات اور سر کے بالوں اور لباسوں میں وہ فیشن جو عورتوں نے ایجاد کی ہے، خاص کر مصر کی عورتوں نے، اگر عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا دیکھتیں تو نہایت شدت سے انکار کرتیں منجملہ ان منکرات کے یہ ہیں، وہ عورتیں لباس فاخرہ پہن کر اور خوشبو لگا کر مٹکتی ہوئی مردوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہوئیں، مردوں کے شانہ باشانہ (بسا اوقات) کھلے منہ بازاروں میں گھومتی رہتی ہیں۔
آخر میں فرماتے ہیں : حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کا ارشاد حضور اکرم ﷺ کی وفات کے تھوڑے عرصہ بعد کا ہے. جب کہ اس زمانہ میں عورتوں کی آزادی اس زمانہ کی عورتوں کی آزادی و منکرات کے مقابلہ میں ہزارواں حصہ بھی نہیں تھی، اندازہ لگائیے اگر حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا اس زمانہ کے عورتوں کی آزادی و فیشن پرستی دیکھتیں تو کیا حکم لگاتیں؟ (عینی شرح بخاری ج۳ ص۲۳۰)
علامہ عینی رحمہ اللہ نویں صدی ہجری کی عورتوں کا یہ حال بیان فرمارہے ہیں، آج تو چودھویں صدی ہے، اِس زمانہ کی عورتوں کی آزادی، بے حیائی، عریانی و بے احتیاطی کی انتہا ہوچکی ہے، برقع ہی رخصت ہو رہا ہے اور اس کی جگہ قسم قسم کے فیشن ایبل لباس آچکے ہیں، اور پھر کھلے سر، کھلے منہ بازاروں میں گھومتی ہیں، ایسے پر فتن دور میں عورتوں کو مسجد اور عید گاہ لانے کی کوشش کی جارہی ہے اور حضور اقدس ﷺ کے بابرکت زمانہ سے استدلال کیا جارہا ہے، عورتیں احتیاط کریں گی، نیچی نگاہ رکھیں گی، خوشبو پاؤڈر سے احتراز کریں گی اور فساق و فجار کی نگاہیں نیچی رہیں گی، اس کی گارنٹی کون دے سکتا ہے؟ (مستفاد : فتاوی رحیمیہ جلد 6 صفحہ 157 تا 163)
اور بندہ یہ کہتا ہے کہ مفتی عبدالرحیم صاحب نے یہ فتوی کم از کم پچیس سال پہلے لکھا ہے، اس وقت انھوں نے لوگوں کی یہ کیفیت بیان کی ہے تو آج انٹرنیٹ اور موبائیل کے دور میں لوگوں کی حیا اور پردہ کا جو جنازہ نکلا ہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں، یہ بات اظہر من الشمس ہے، چنانچہ ایسے حالات میں خواتین کو نماز کے لیے مسجد لانے میں کتنا بڑا خطرہ ہے اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔
خواتین کے نماز کے لیے مسجد جانے کے متعلق مسئلہ کو اس وقت زیادہ تقویت مل گئی جب پاکستان کے ایک دیوبندی جید عالمِ دین نے اپنے بیان میں یہ کہا کہ عورتوں کو جمعہ کے دن نماز کے لیے مسجد جانے کی اجازت دی جانی چاہیے، اور یہی بات دوہرائی جو سوالنامہ میں مذکور ہے، لیکن انھوں نے اسے فتوی نہیں کہا ہے بلکہ صرف اپنی ناقص رائے کہی ہے اور اس پر علماء کو غور کرنے کی دعوت دی ہے، چنانچہ ان کے اس بیان کو بنیاد بناکر ہمارے بعض بھائی بھی یہ مطالبہ کررہے ہیں۔
ان حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ خواتین صرف اتنا ہی نہیں کررہی ہیں کہ بازاروں میں پھر رہی ہیں، پکنک منارہی ہیں بلکہ اس کے آگے بھی کررہی ہیں، یعنی بغیر محرم کے شرعی مسافت کی مقدار کا سفر بھی کررہی ہیں، جبکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی عورت کے لئے جو کہ اللہ تبارک وتعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں کہ وہ تین راتوں کی مسافت (تین راتوں کی مسافت سے مراد 87 کلومیٹر ہے) سفر کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو۔ چنانچہ اس روایت کی وجہ سے عورتوں کے لئے بغیر محرم کے حج و عمرہ کرنا جائز نہیں ہے، تو کیا ان کی غیر شرعی حرکت (بغیر محرم کے سفر) کی وجہ سے انھیں حج و عمرہ کے لیے بغیر محرم کے سفر کی اجازت دے دی جائے؟ اور یہ کہہ دیا جائے کہ عورتیں تو پہلے ہی سے بغیر محرم کے سفر کررہی ہیں، لہٰذا انھیں بغیر محرم کے حج و عمرہ کے سفر کی اجازت دے دی جائے۔
یہ بات ہر کوئی کہے گا کہ ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ تو پھر مسجد کے معاملے میں کیونکر اجازت دی جائے؟
موجودہ دور میں جبکہ فتنہ کا اندیشہ مزید بڑھ گیا ہے تو اس صورت میں عورتوں کے مسجد جانے کی کراہت بھی سخت ہوجائے گی۔
اور اگر بالفرض جمعہ کی نماز میں خواتین کو مسجد جانے کی اجازت دے دی جائے تو ان کے لیے ہر مسجد سے لگ کر اتنی ہی بڑی ایک عمارت اور تعمیر کرنا ہوگی، کیونکہ ظاہر ہے مسجد تو جمعہ کے دن نمازیوں سے بھر جاتی ہے، اور خواتین کی بڑی تعداد جماعت میں شریک ہوگی جو کہ غالباً مردوں کی تعداد سے بھی بڑھ جائے، لہٰذا ان کے لیے صرف ایک نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد سے بھی بڑی جگہ پر ایک عمارت تعمیر کرنا پڑے گی۔
اس تعمیر کی ذمہ داری کون لے گا؟
کیا صرف ایک جائز عمل کے لیے امت کا کثیر سرمایہ لگانا درست ہوگا؟
کیا اس عمارت کی تعمیر پر مسجد کی تعمیر کے فضائل کا اطلاق ہوگا؟
اور نماز کے اختتام پر مسجد کے باہر مرد و زن کا جو اختلاط ہوگا اور اس سے جو فتنے برپا ہوں گے اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
کیا ایک مباح عمل کے لیے یہ فتنہ مول لینا مزاجِ شریعت کے خلاف نہیں؟
عیدگاہوں کی کیا کیفیت ہوگی اس کا تو اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔
یہ وہ سوالات اور اندیشے ہیں جس کی وجہ سے فی زماننا اس مسئلہ پر از سرِ نو غور کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، عورتوں کا نماز کے لیے مسجد اور عید گاہ جانا اب بھی مکروہ و ممنوع ہی ہے۔
اسی طرح یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ عورتیں بیانات سننے کے لیے مسجد جاسکتی ہیں لیکن نماز کے لیے نہیں جاسکتی، تو ملحوظ رہے کہ خواتین کا نماز کے لئے مسجد جانا ایک جائز عمل تھا، اور دین کا سیکھنا ان پر فرض ہے، جیسا کہ جواب نمبر ایک کے تحت گذرا ہے، لہٰذا پردہ کی رعایت کرتے ہوئے دین سیکھنے کے لیے ان کو گھروں سے نکلنے کی اجازت دی گئی ہے خواہ اس کا انتظام مسجد میں ہو یا کسی ہال وغیرہ میں، بشرطیکہ وہاں ان کے لیے شرعی پردہ کا انتظام ہو۔ (2)
تاہم گھر کے باہر نکلنے کے سلسلے میں خواتین کو درج ذیل ہدایات پر عمل کرنا ضروری ہے۔
1) شرعی پردہ کی مکمل رعایت ہو، موجودہ دور جو فتنہ کا خوف ناک دور ہے، اس میں عام حالات میں حکم چہرہ چھپانے ہی کا ہے، نظروں کی بھی حفاظت ہو، قرآن کریم میں اس کا حکم دیا گیا ہے، قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ … وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ۔ ( سورۃ نور: ۳۰-۳۱)
2) برقع سادہ اور جسم کے لیے ساتر ہو، بھڑک دار، جاذب، اور پر کشش نہ ہو، اور ایسا بھی نہ ہو جس سے جسم کا کوئی حصہ نمایاں ہوتا ہو، کیوں کہ حدیث شریف میں عورت کے لیے ایسا لباس پہننے کی ممانعت اور وعید وارد ہوئی ہے :
رب نساء کاسیات عاریات ممیلات ومائلات، لا یدخلن الجنّة ولا یجدن ریحہا وإن ریحہا لیوجد من مسیرة کذا وکذا(مسلم شریف:۱/۳۹۷)
ترجمہ: کچھ عورتیں ہیں جو کپڑا پہننے والی ہیں(مگر) وہ برہنہ ہیں، دوسروں کو مائل کرنے والی ہیں اور خود بھی مائل ہونے والی ہیں (ایسی عورتیں) ہرگز جنت میں نہیں جائیں گی اور نہ اس کی خوشبو سونگھ پائیں گی حالانکہ اسکی خوشبو اتنی اتنی دور سے آئے گی۔
3) بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کے ساتھ نیز خوشبو لگاکر نہ نکلے، قرآن کریم میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے ارشاد باری ہے: وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأوْلَی (احزاب:۳۳)، احادیث میں بھی خوشبو لگا کرنکلنے و الی عورت کو زانیہ قرار دیا گیا ہے: کل عین زانیة والمرأة إذا استعطرت فمر ت بالمجلس فہي کذا وکذا یعني زانیة(ترمذی:رقم:۲۷۸۶)، ترجمہ:ہر آنکھ زنا کرنے والی ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گذرتی ہے تو وہ زنا کرنے والی ہوتی ہے۔
4) مردوں سے بالکل اختلاط نہ ہو، اگر کبھی کسی مرد سے مجبوراً گفتگو کی نوبت آئے تو عورت لوچ دار طرزِ گفتگو کے بجائے سخت لہجہ اختیار کرے تاکہ مرد کے دل میں بے جا قسم کے وساوس وخیالات پیدا نہ ہوں ،اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ۔(الآیة احزاب : ۳۲)، ترجمہ: تم بولنے میں نزاکت مت کرو کہ ایسے شخص کو خیال ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے۔
5) ایسا زیور پہن کر نہ نکلے جس سے آواز آتی ہو. قرآن کریم میں ہے : وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُْعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ. (النور:۳۱)
ترجمہ: اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے۔
اسی کے ساتھ خواتین اپنی نیتوں کو بھی ٹٹول لیں کہ ہم کس لیے دینی مجالس میں شرکت کررہے ہیں؟ کیونکہ آج کل بعض خواتین کی ان مجالس میں شرکت ایک دوسرے کی حرص اور دیکھا دیکھی میں ہوتی ہے، یا کانوں کے مزہ کے لیے بیانات سنے جاتے ہیں کہ فلاں کی تقریر بڑی اچھی ہوتی ہے اور فلاں کا بیان بڑا مزیدار ہوتا ہے، یا پھر دوسروں پر اپنی معلومات کا رعب جمانے کے لئے کی جاتی ہے.
اصلاح اور عمل کی نیت سے تقریر و وعظ کی مجالس میں شرکت کرنا چاہئے، یہی چیز دنیا و آخرت میں کامیابی کا سبب بنیں گی۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو حیا اور پردہ کی توفیق عطا فرمائے، بے پردگی بے حیائی سے ہم سب کی حفاظت فرمائے، اور منشائے نبوت کو سمجھ کر اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے.
آمین یا رب العالمین
1) الفتوی فی زماننا علی أنہن لا یخرجن وإن عجائز إلی الجماعات لا فی اللیل ولا النہار لغلبۃ الفتنۃ والفساد وقرب یوم المعاد۔ (نفع المفتی والسائل ۹۳، شامی زکریا ۲؍۳۰۷، بیروت ۲؍۲۶۳)
واعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین، وہو بقدر ما یحتاج لدینہ قال : من فرائض الإسلام تعلم ما یحتاج إلیہ العبد فی إقامۃ دینہ ، وإخلاص عملہ للہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ، وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ ، تعلم علم الوضوء والغسل والصلوۃ والصوم ۔ (۱/۱۲۱، قبیل مطلب فی فرض الکفایۃ وفرض العین، شامی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 شوال المکرم 1439
السلام علیکم
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب
اگر خواتین کےلئیے مسجد کے اوپر والا حصہ تعمیر ہو اور راستہ بھی علیحدہ ہو جہاں سے مردو زن کا اخلاط بھی نہ ہو ۔۔ اور اس علاقہ میں اہل تشیع و اہل بدعت کی کثرت ہو ۔۔۔۔ تو خواتین کو تعلیم و عقائد کی درستگی کےلئیے جمعہ مین علحیدہ جگہ پہ شرکت کی اجازت ہو گی؟؟؟
جمعہ کی نماز میں جمعہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جس طرح خواتین کے دیگر اجتماعات ہوتے ہیں، اسی طرح کیے جائیں۔
حذف کریںMashaallah Mufti Sahab ap samjhate bahut achichi tarah se ho Allah taala ap se khob deen ka kaam le
جواب دیںحذف کریں