سوال :
مفتی محترم! ایک مکان کا سودا ایک کروڑ میں دو سال کی مدت میں طے ہوا۔ مکان لینے والے نے 20 لاکھ روپیہ دیا اور سودے کی مدت ختم ہو گئی اور باقی رقم ادا نہیں کی گئی اب اس صورت میں جو 20 لاکھ روپیہ ایثار دیا گیا کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سودا ختم ہونے کی صورت میں ایثار ڈوب جائے گا تو کیا یہ رقم مکان بیچنے والا رکھ سکتا ہے؟ یہ رقم لینا یا رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر ہندوستانی قانون کے مطابق اگر یہ رقم لینا جائز ہو تو اس صورت میں ہمارے لیے شرعی حکم کیا ہوگا؟
(المستفتی : عبداللہ، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق : ابوداؤد اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے :
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سےروایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بیع میں بیعانہ مقرر کرنے سے منع فرمایا ۔ ابوعبداللہ کہتے ہیں کہ عربان کا مطلب یہ ہے کہ مرد سواری خریدے سو اشرفی کے بدلے اور دو اشرفی بطور بیعانہ دے دے اور یہ کہے کہ اگر میں نے سواری نہ خریدی تو بھی یہ دونوں اشرفیاں تمہاری ہونگی۔ اور بعض نے کہا واللہ اعلم عربان یہ ہے کہ مرد کوئی چیز خریدے تو فروخت کنندہ کو ایک درہم کم یا زیادہ دیدے اور کہے اگر میں نے یہ چیز لے لی تو ٹھیک ورنہ یہ درہم تمہارا ۔ (2)
بیع عُربان کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھ لیا جائے کہ مثلًا ایک شخص کسی سے کوئی چیز خریدے اور بیچنے والے کو کچھ رقم پیشگی دیدے اور یہ طے کر دے کہ اگر یہ معاملہ مکمل ہو گیا تو یہ رقم قیمت میں شامل ہوجائے گی اور اگر معاملہ پورا نہ ہوا اور میں پوری قیمت ادا کرکے اس چیز کو اپنے قبضے میں نہ لے سکا تو پھر یہ رقم تمہارے ہی پاس رہے گی میں اسے واپس نہ لوں گا اسے ہماری زبان میں بیعانہ اور اِسار کہتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، حنفیہ کے یہاں یہ اس صورت میں جائز ہے جب کہ یہ طے ہو کہ اگر معاملہ مکمل ہو جائے تو وہ رقم بیچنے والے کا حق ہو اس طرح کہ وہ قیمت میں شامل ہوجائے اور اگر معاملہ مکمل نہ ہوا تو پھر وہ خریدار ہی کا حق رہے کہ وہ رقم اسے واپس مل جائے ۔
صورت مسئولہ میں بطور بیعانہ دی گئی بیس لاکھ کی رقم ثمن (قیمت) کا ہی کا ایک حصہ ہے، اس لئے سودا ختم ہونے پر اس رقم کا واپس کردینا لازم اور ضروی ہے، چاہے سودا خریدار کی طرف سے ختم ہو یا بیچنے والے کی طرف سے، اگر بیچنے والا واپس نہیں کرے گا تو ناحق مال لینے کا گناہ ہوگا اور یہ رقم حرام کہلائے گی۔ اسی طرح اگر یہ ہندوستانی قانون ہو تب بھی فروخت کرنے والے کے لیے بیعانہ کی رقم کا رکھ لینا جائز نہیں ہے ۔ (2)
1) عن عمرو بن شعیب، عن أبیہ، عن جدہ أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم نہی عن بیع العربان، قال أبو عبداﷲ : العربان : أن یشتري الرجل دابۃ بمائۃ دینار، فیعطیہ دینارین عربونا، فیقول: إن لم أشتر الدابۃ فالدیناران لک۔ الحدیث (ابن ماجۃ شریف، أبواب التجارات، باب بیع العربان، ۱/ ۱۵۸)
2) ویرد العربان إذا ترک العقد علی کل حال بالاتفاق۔ (بذل المجہود : ۴/ ۲۸۷)فقط
واللہ تعالیٰ اعلم
محمدعامرعثمانی ملی
03 صفر المظفر 1440
بہت بہترین
جواب دیںحذف کریں