*مسجد میں افطار اور سحری کے وقت اعلان کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کہ آج کل رمضان المبارک میں لاؤڈ-اسپیکر کے ذریعے مؤذنین کو جو اعلان سحر و افطار کا کرایا جاتا ہے نیز دعا بھی پڑھانا پڑتا ہے، شرعی لحاظ سے آپ رہنمائی فرمائیں کیا موذن کے لیے یہ سب کرنا اشد ضروری ہے؟ اس لئے کہ کسی دن مؤذن نے اگر دعا نہیں پڑھائی اور اعلان نہ ہوسکا کہ ابھی آدھا گھنٹہ باقی ہے، ابھی 25 منٹ باقی ہے، ابھی 20 منٹ باقی ہے، تو پورا محلہ عوام و خواص سر پر اٹھا لیتے ہیں۔
(المستفتی : اشفاق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں اذان کے ذریعے سحر کے ختم ہونے اور افطار کا وقت ہونے کی اطلاع دی جاتی تھی، باقاعدہ سحری کے لیے بیدار کرنے اور تھوڑے تھوڑے وقفہ سے بار بار مسجد سے اعلان کرنے اور افطار کے وقت اعلان کے ذریعے افطار کے لئے مطلع کرنے کا معمول نہیں تھا۔ اس لئے افضل یہی ہے کہ صبح صادق ہوتے ہی اذان دے دی جائے اور لوگوں کو اس کا علم ہو کہ احتیاطاً صبح صادق سے پانچ منٹ پہلے کھانا پینا بند کردیں، اور افطار کا وقت ہوتے ہی اذان دے دی جائے اور لوگ اذان سن کر افطار کرلیں۔
البتہ فی زمانہ تمام سہولیات مثلاً گھڑی، موبائیل، تقویم کارڈ وغیرہ ہونے کے باوجود عوام غفلت کا شکار ہیں، اور مسجد کے اعلان کے بھروسے ہوتے ہیں، اس لئے افطار و سحر کے وقت اعلان کی گنجائش ہے، لہٰذا سحر کے وقت شروع اور اخیر میں ایک دو مرتبہ اعلان کردیں ہر پانچ منٹ پر اعلان کرنا غیرمناسب عمل ہے، نیز اس اعلان کو ضروری سمجھنا اور مؤذن صاحب کو اس کا پابند بنانا اور کبھی مؤذن صاحب نے اعلان نہیں کیا تو انہیں ٹوکنا اور برا بھلا کہنا (جیسا کہ سوال نامہ میں ذکر کیا گیا ہے) قطعاً درست نہیں ہے۔ ہرشخص اپنے روزہ کا ذمہ دار ہے، لہٰذا ہر شخص کو سحر و افطار کا وقت معلوم ہونا چاہیے اور اسی کے مطابق اپنے سحر و افطار کرنا چاہئے، مسجد کے اعلان کے بھروسے نہیں رہنا چاہیے۔
اسی طرح مسجد سے ان اوقات میں دعا پڑھانا صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ اگر ان اوقات میں دعا پڑھانے کی اجازت دی جائے تو پھر دوسرے اوقات میں جو مسنون دعائیں ہیں اس کے متعلق کیا کہا جائے گا؟ کل کو لوگ کہیں گے اذان کے بعد کی دعا بھی مائک سے پڑھادی جائے۔ روزہ افطار کی مسنون دعا لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے جو کہ انتہائی مختصر ہے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے :
*اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَ عَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ*
روزہ کی نیت کے لئے کوئی مخصوص الفاظ حدیث شریف سے ثابت نہیں ہے. نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، اگر کوئی شخص دل سے ارادہ کرلے کہ کل رمضان کا روزہ رکھوں گا تو یہ بھی درست ہے، زبان سے ادا کرلینا بہتر ہے، زبان سے تلفظ کرتے وقت عربی میں اس طرح کہہ لے :
*نَوَیْتُ أَصُوْمُ غَدًا مِّنْ فَرْضِ رَمَضَانَ*
ترجمہ : کل رمضان المبارک کا روزہ رکھنے کی نیت کرتا ہوں۔
ان الفاظ سے نیت کرنا ضروری نہیں، اور نہ ہی عربی میں نیت کرنا ضروری ہے، اگر کوئی شخص اردو میں کہہ لے کہ : کل میں رمضان کا روزہ رکھوں گا، تو بھی درست ہوجائے گا۔
سوال میں مذکور مسائل اس وقت پیش آتے ہیں جب کہ لوگوں کو دین کی صحیح معلومات نہ ہو، اگر لوگوں کو صحیح معلومات مل جائے تو مسائل خود بخود حل ہوجاتے ہیں۔
عن عبد اللہ بن مسعود-رضي اللہ عنہ- عن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال: لا يمنعن أحدكم - أو أحدا منكم - أذان بلال من سحوره؛ فإنه يؤذن - أو ينادي بليل - ليرجع قائمكم، ولينبه نائمكم…الحدیث۔ (صحیح البخاري، رقم :۶۲۱)
وفی شرعۃ الإسلام استحباب الأذان للتسحیر فی رمضان۔(العرف الشذی علی الترمذی ، کتاب الزکاۃ ، باب ماجاء فی الأذان باللیل۱/۵۴)
عن معاذ بن زہرۃ أنہ بلغہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا أفطر قال: اللّٰہم لک صمت وعلی رزقک أفطرت۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۳۲۱)
والسنة أن یتلفظ بھا فیقول: نویت أصوم غدا أو ھذا الیوم إن نوی نہاراً للہ عز وجل من فرض رمضان۔ (شامي : ٣/٣٤٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 شعبان المعظم 1439
ماشاءاللہ بہت ہی خوب
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںMasha allah
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ,
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیر
ماشااللہ بہت خوب رہنمائی بروقت عمدہ تحریر
جواب دیںحذف کریںآج معاشرے میں اس رہنمائی کی اشد ضرورت ہے !
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ماشاءاللہ بہت خوب
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب سے ایک سوال پوچھنا ہے تراویح میں ختم قرآن کریم کے بعد دعاء کا معاملہ ہے دعاء ایک مستحب ومسنون عمل ہے اور وتر کی نماز ایک واجب ہے کیا کسی مستحب ومسنون عمل کی وجہ سے کسی واجب کی تاخیر کی جائیگی ۔ بلاوجہ تاخیر کرنا حافظ صاحب کو ہدیہ وغیرہ دینا اور بیان وغیرہ کرانا رسما۔ وتر واجب کو مؤخر کرنا کیا یہ صحیح طریقہ ہے۔ جب کہ وہ واجب کی ادائیگی کے بعد بھی ہوسکتا ہے ۔ بینووتواجرو
یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے۔ اس واٹس اپ نمبر 9270121798 پر رابطہ فرمائیں ۔
حذف کریںبہت خوب
جواب دیںحذف کریںMufti sahab, aaj kal to masjidon se itna elaan aur naat padhi jati hai ke poora mohalla goonjta raheta hai, aise me na koi dhang se tahajjud padh sakta hai na telawat wo dua me yaksooee hasil kar sakta hai.
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب نے عمدہ جواب مرحمت فرمایا
جواب دیںحذف کریںایک روزہ چہوڑنے پر نو لاکہ برس جہنم کی آگ میں جلایا جاۓگا کوئ حدیث ہے
جواب دیںحذف کریں