🌧 *نمازِ استسقاء سے متعلق احکامات* 🌧
✍ مفتی محمد عامر عثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
اِستِسقاء کے لغوی معنی ہیں پانی طلب کرنا، اور اصطلاح شریعت میں اس کا مطلب ہے قحط اور خشک سالی میں طلب بارش کے لئے بتائے گئے طریقوں کے مطابق نماز پڑھنا اور دعا کرنا۔
جب بارش میں سخت کمی ہوجائے، اور تالاب خشک ہورہے ہوں، اور کھیتیوں میں سینچائی کی سخت ضروت ہو، دریاؤں اور ندیوں کا پانی ناکافی ثابت ہونے لگے، تو ایسے حالات میں نماز استسقاء پڑھنا مستحب ہے، نماز استسقاء کے جواز کی بنیادی شرط یہی ہے کہ پانی کی ایسی قلت ہوجائے کہ مخلوقِ خدا پریشان ہوجائے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ پہلے زمانے میں ڈیم وغیرہ سے پانی کو محفوظ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، صرف کنویں اور تالاب ہوتے تھے جو سخت گرمی میں سوکھنے لگتے تھے، چنانچہ جب بارش کے موسم میں فوراً بارش نہیں ہوتی تو مخلوق پر اس کے اثرات جلد نمودار ہونے لگتے، لہٰذا استسقاء کے جواز کی شرط یہ رکھ دی گئی۔ لیکن موجودہ زمانے میں چونکہ بڑے بڑے ڈیم ہونے کی وجہ سے پانی بڑی مقدار میں محفوظ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے جلد عام لوگوں پر پانی کی قلت کے اثرات واضح طور پر نظر نہیں آتے۔ تاہم اگر بارش کا پورا موسم اسی طرح بغیر بارش کے نکل گیا تو ظاہر ہے قلت کے آثار واضح طور پر سمجھ میں آئیں گے، لہٰذا موسم مکمل طور پر گذرنے سے پہلے ہی نماز استسقاء پڑھی جائے گی، ایسے وقت میں مخلوق کے پریشان ہونے کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح بارش کے موسم میں ہی بعض فصلوں کو بارش کے پانی کی سخت ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ جب انہیں بارش کا پانی نہ ملے تو وہ خراب ہوجاتی ہیں۔ اور یہ بھی ظاہر سی بات ہے کہ بارش کی دعا بارش کے موسم میں ہی کی جائے گی، موسم نکلنے کے بعد بارش کی دعا کرنا مزید اپنے لیے مصیبتیں کھڑی کرنا ہے، اس لئے کہ بے موسم بارش سے فصلوں کی خرابی کے ساتھ ساتھ مزید نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ لہٰذا فی الحال ہمارے یہاں نماز استسقاء کا جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ بالکل درست ہے اور شریعت کے عین مطابق ہے۔
وشرعاً طلب إنزال المطر بکیفیۃ مخصوصۃ عند شدۃ الحاجۃ بأن یحبس المطر ولم یکن لہم أودیۃ واٰبار وأنہار الخ۔ (شامی زکریا ۳؍۷۰)
بلا جماعۃ مسنونۃ بل ہی جائزۃ (در مختار) وفی الشامی: قلت: والظاہر أن المراد بہ الندب والاستحباب الخ۔ (شامی زکریا ۳؍۷۱)
متعدد احادیث میں ملتا ہے کہ رسول کریم ﷺ لوگوں کے ہمراہ طلب بارش کے لئے عید گاہ تشریف لئے گئے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے وہاں دو رکعت نماز پڑھائی جس میں بلند آواز سے قرأت فرمائی اور قبلہ رخ ہو کر دعا مانگی نیز آپ ﷺ نے (دعا کے لئے) اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے اور قبلہ رخ ہوتے وقت اپنی چادر پھیر دی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
نماز استسقاء کا طریقہ
صاحبین رحمھما اللہ کے نزدیک استسقاء کے لئے نماز باجماعت مسنون ہے، احناف کے یہاں یہی قول مفتی بہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ نماز استسقاء کے لئے عیدگاہ یا کسی بڑے میدان میں جمع ہونے کا انتظام کیا جائے۔
نماز استسقاء کا طریقہ وہی ہے جو نماز عید کا ہے یعنی اذان واقامت کے بغیر جماعت قائم کی جائے گی، بس فرق یہ ہے کہ عید کی نماز میں زائد تکبیرات ہوتی ہیں، استسقاء میں نہیں ہوتیں۔ دو رکعت نماز پڑھانے کے بعد امام زمین پر کھڑے ہوکر ہی عید کی طرح خطبہ دے گا، اس کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہوکر نہایت گریہ وزاری اور عاجزی کے ساتھ دعا کرے گا اور تمام نمازی بھی امام کی دعا پر آمین کہتے رہیں گے، یا خود پوری توجہ سے دعا مانگتے رہیں گے۔
تین دن لگاتار نماز استسقاء ادا کرنا بہتر ہے، لیکن اگر صرف ایک دن بھی اہتمام کیا جائے تب بھی بلاکراہت درست ہے۔
وقالا تفعل کالعید (درمختار) بأن یصلی بہم رکعتین یجہر فیہمابالقراء ۃ بلا أذان ولا إقامۃ، ثم یخطب بعدہا قائماً علی الأرض الخ۔ والمشہور من الروایۃ عنہما أنہ لایکبر (أی الزوائد) (شامی زکریا ۳؍۷۱، حلبی کبیر ۴۲۷)
ویخرجون أی إلی الصحراء کما فی الینابیع وہٰذا فی غیر أہل المساجد الثلا ثۃ۔ (شامی زکریا ۳؍۷۲)
واتفقوا علی أن السنۃ الخروج إلی الاستسقاء ثلاثۃ أیام متتابعات۔ (حلبی کبیر ۴۲۷، درمختار مع الشامی زکریا ۳؍۷۲)
چادر وغیرہ کا پلٹنا
استسقاء کے خطبہ کے دوران امام کے لئے اپنی چادر کو اُلٹنا پلٹنا سنت سے ثابت ہے، دراصل یہ حالت کے بدلنے کے لئے نیک فالی کے طور پر ہے، اور چادر بدلنے کی کیفیت یہ ہے کہ نیچے کا حصہ اوپر کی جانب، یا دائیں جانب کو بائیں جانب اور بائیں جانب کو دائیں جانب کرے، یا اندرونی حصہ باہر اور باہری حصہ اندر کرے، الغرض جس طرح بھی اُلٹنا پلٹنا ممکن ہو اس کو عمل میں لائے، حتی کہ اگر کوٹ وغیرہ پہنے ہو تو ظاہری حصہ اندر کی طرف اور استر کا حصہ باہر کردے۔ واضح رہے کہ یہ چادر صرف امام پلٹائے گا مقتدی نہیں پلٹائیں گے۔
خلافاً لمحمد فإنہ یقول یقلب الإمام ردائہ إذا مضی صدر من خطبتہٗ فإن کان مربعاً جعل أعلاہ أسفلہ وأسفلہ أعلاہ وإن کان مدوراً جعل الأیمن علی الأیسر والأیسر علی الأیمن، وإن کان قباء اً جعل البطانۃ خارجاً والظہارۃ داخلاً (حلیہ) وعن أبي یوسف روایتان: واختار القدوری قول محمد لأنہ علیہ الصلاۃ والسلام فعل ذلک (نہر) وعلیہ الفتویٰ، کما فی شرح درر البحار۔ (شامی زکریا ۳؍۷۱، حلبی کبیر ۴۲۹)
قلّب رداء ہ ........ ولکن القوم لایقلبون اردیتھم ھکذا فی الکافی والمحیط والسراج الوھاج الخ۔ (ہندیہ : ١/ ۱۵۴)
دعا کے وقت ہاتھوں کی کیفیت
نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے استسقاء کی دعا کے وقت عام دعاؤں کے برخلاف ہتھیلیوں کا حصہ زمین کی طرف اور ہاتھ کا اوپری حصہ آسمان کی طرف کرکے (یعنی الٹے ہاتھ کرکے) دعا فرمائی، اسی وجہ سے فقہاء نے بھی دعائے استسقاء میں اسی کیفیت کو پسندیدہ قرار دیا ہے۔
عن أنس بن مالک ص أن النبی ا استسقیٰ فأشار بظہر کفیہ إلی السماء۔ (مسلم شریف ۱؍۲۹۳)
قال النووی: قال جماعۃ من أصحابنا وغیرہم السنۃ فی کل دعاء لرفع بلاء کالقحط ونحوہٖ أن یرفع یدیہ ویجعل ظہر کفیہ إلی السماء وإذا دعا بسوال شئ وتحصیلہ جعل بطن کفیہ إلی السماء واحتجوابہذا الحدیث۔ (نووی علی مسلم ۱؍۲۹۳)
قال الطحطاوی : ثم السنۃ فی کل دعاء لسوال شئ وتحصیلہ أن یجعل بطون کفیہ نحو السماء ولرفع بلاء کالقحط یجعل بطونہما إلی الأرض وذٰلک معنی قولہ تعالیٰ: {وَیَدْعُوْنَنَا رَغَباً وَّرَہْباً} (کذا فی شرح البدر العینی علی الصحیح، طحطاوی علی مراقی الفلاح طبع کراچی ۳۰۱، أشرفي ۵۵۱)
(مستفاد : کتاب المسائل جلد اول، صفحہ 505 تا 509)
2 اگست 2018
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں