ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

جمعہ یا رمضان المبارک میں انتقال کرنے والے سے عذاب قبر اٹھا لیا جانا

سوال :

مفتی صاحب! کیا یہ بات صحیح ہے کہ جمعہ کے دن اور رمضان المبارک کے مہینے میں کسی کا انتقال ہوتو اس کا حساب کتاب اور اس سے سوال وجواب نہیں ہوتا۔اسکی مغفرت ہوجاتی ہے؟ اور جس کے جنازے میں چالیس افراد شریک ہو تو اسکی بھی مغفرت ہو جاتی ہے؟ رہنمائی فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حافظ مبین، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احادیث مبارکہ اور عبارات فقہاء سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی مسلمان کا انتقال رمضان المبارک یا جمعہ کے دن ہوجائے تو اس سے عذاب قبر اٹھا لیا جاتا ہے۔

اسی طرح احادیث مبارکہ میں یہ بھی ملتا ہے اگر کسی کے جنازے میں سو، چالیس یا تین صف کے بقدر لوگ جمع ہوں اور وہ میت کے لئے مغفرت و جنت کی دعا کریں تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ ذکر کردہ لوگوں کی مکمل طور پر مغفرت نہیں ہوتی کہ اب ان سے کچھ بھی پوچھ گچھ نہ ہو، کیونکہ عذابِ قبر اور مغفرت کا مسئلہ میدان حشر وآخرت کے حساب وکتاب کے مسئلہ سے بالکل الگ ہے، لہٰذا حقوق العباد وغیرہ معصیت میں مبتلا مؤمن اگر ان مبارک ایام میں انتقال کر جائے تو بروایت حدیث وفقہ عذاب قبر سے تو محفوظ ہوجائے گا، لیکن آخرت  میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں حساب وکتاب سے چھٹکارا نہیں ہوگا، حقوق العباد وغیرہ کا سوال آخرت میں ضرور ہوگا۔

عن أنس بن مالک رضي اللہ عنہ أن عذاب القبر یرفع من الموتی شہر رمضان۔ (شرح الصدور، للسیوطي، بإسناد ضعیف، ص: ۱۲۵)

إن بعض الموتی شہر رمضان لا ینالہم فتنۃ القبر، ولا یأتیہم الفتانات، وذلک علی ثلاثۃ أوجہ مضاف، أي عمل ومضاف إلی حال بلا … بالموت ومضاف إلی زمان۔ (شرح الصدور، ص : ۱۷)

عن ابن عمر قال: قال رسول اللہ ﷺ ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللہ فتنۃ القبر۔  (واخرج أحمد والترمذي وحسنہ وابن أبي الدنیا والبیہقي۔ (شرح الصدور، ص: ۸۹)

و یأمن المیت من عذاب القبر، ومن مات فیہ، أو في لیلتہ أمن من عذاب القبر، ولا تسجر فیہ جہنم، وتحتہ في الشامیۃ، قال أہل السنۃ والجماعۃ عذاب القبر حق وسوال منکر ونکیر، وضغطۃ القبر حق لکن إن کان کافرا، فعذابہ إلی یوم القیامۃ، ویدفع عنہ یوم الجمعۃ، وشہررمضان فیعذب اللحم متصلا بالروح، والروح متصلا بالجسم، فیتألم الروح مع الجسد وإن کان خارجا عنہ، والمؤمن المطیع لا یعذب، بل لہ ضغطۃ یجد ہول ذلک، وخوفہ والعاصي یعذب ویضغط لکن ینقطع عنہ العذاب یوم الجمعۃ ولیلتہا، ثم لا یعود وإن مات یومہا أو لیلتہا یکون العذاب ساعۃ واحدۃ، وضغطۃ القبر ثم یقطع۔ (شامي، کراچی آخر باب الجمعۃ ۲/ ۱۶۵، زکریا ۳/ ۴۴)

ومن لا یسأل، وفي الشامي: ثم ذکر أن من لا یسأل ثمانیۃ: الشہید، والمرابط، والمطعون، والمیت زمن الطاعون بغیرہ إذا کان صابرا محتسبا، والصدیق، والأطفال، والمیت یوم الجمعۃ أو لیلتہا، والقارئ کل لیلۃ تبارک الملک، وبعضہم ضم إلیہا السجدۃ۔ (شامي، مطلب ثمانیۃ لا یسألون في قبورہم، کراچی ۲/ ۱۹۲، زکریا ۳/ ۸۱)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 رجب المرجب 1439

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں