بدھ، 17 اکتوبر، 2018

مدارسِ اسلامیہ کا وجود اور ہماری ذمہ داری

*مدارسِ اسلامیہ کا وجود اور ہماری ذمہ داری*

✍ محمد عامر عثمانی ملی

قارئین کرام ! ایک انسان کی بنیادی ضرورت خوراک و پوشاک ہیں، خوراک سے انسان کے پیٹ اور پوشاک سے جسم کی ضرورت تو پوری ہوسکتی ہے، لیکن ایک حقیقی اور سچے مسلمان کے پاس اس کے پیٹ اورجسم کے ان تقاضوں کے علاوہ بھی ایک اہم چیز دین و ایمان ہے۔ چنانچہ مسلمان بھوکا تو رہ سکتا ہے، لیکن وہ اپنی مذہبی خصوصیات سے دستبردار نہیں ہوسکتا، اگروہ اس دین میں رہے گا تو اپنی ان تمام خصوصیات کے ساتھ رہے گا۔

محترم قارئین ! آج پوری دنیا میں مسلمانوں کو بحیثیت ایک ملت کے ختم کرنے کی منصوبہ بندی اور کوششیں ہورہی ہیں، آج ہمارے دشمن ہمارے ملی وجود اور مذہبی خصوصیات کو چن چن کر ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، اگر آج اسلام اپنی تمام تر خصوصیات وامتیازات کے ساتھ ہندوستان میں نظر آرہا ہے تو یہ مدارسِ دینیہ کی دین ہے۔ شہر شہر، گلی گلی، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مساجد کا وجود، مختلف تحریکوں کی شکل میں مسلمانوں کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی اصلاح کا جو جال ہرسمت بچھا ہوا ہے، یا کسی بھی جگہ دین کا شعلہ یا اس کی تھوڑی سی رمق اور چنگاری سلگتی ہوئی نظر آرہی ہے وہ انھیں مدارسِ اسلامیہ کا فیضان ہے، اگر ان مدارس کا وجود نہ ہوتا تو آج ہم موجود تو ہوتے، لیکن بحیثیت مسلم نہیں، بلکہ ہماری پہچان خدانخواستہ کچھ اور ہوتی۔

معزز قارئین ! درج بالا تمہید کا مقصد یہ ہے ہم مدارس اسلامیہ کی اہمیت کو سمجھیں، اور بقدر استطاعت اس کی بقا و ترقی میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں۔ مسلمانوں کے نذرانے پر چلنے والے یہ مدارسِ اسلامیہ جنہیں دین کا قلعہ کہا جاتا ہے، فی زمانہ ان پر سخت حالات آئے ہوئے ہیں، دشمنوں کی نظریں ان اسلامی قلعوں پر لگی ہوئی ہے، وہ انھیں کمزور کرکے ختم کردینا چاہتے ہیں، دشمنوں کے ان حربوں میں سے ایک حربہ یہ بھی ہے کہ مدارس اسلامیہ کو مالی طور پر کمزور کیا جائے۔ جیسا کہ آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مدارس اسلامیہ کے مالی اخراجات مسلمانوں کے عطیات و زکوٰۃ سے پورے کئے جاتے ہیں، اسی طرح اکثر مدارس میں زکوٰۃ و عطیات کے علاوہ چرم قربانی کی رقومات بھی ان کے اخراجات کی تکمیل میں اہم درجہ رکھتی ہیں۔ لیکن حکومتِ وقت کے ظالمانہ قانون کے نفاذ ( گائے کی نسل کے ذبیحہ پر پابندی) کے بعد سے بھینس کی کھالوں کی قیمت میں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے ان مدارس کا بجٹ حددرجہ متاثر ہوگیا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ممانعت سے پہلے چرم قربانی کی مد میں جو آمدنی ہوتی تھی ممانعت کے بعد اس میں 80/90 فیصد تک کمی واقع ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے بعض معیاری اور عظیم ادارے مقروض ہورہے ہیں۔

لہٰذا ایسے حالات میں ہم سب پر لازم ہے کہ عیدالاضحٰی کے موقع پر اگر ہم قربانی کرتے ہیں تو ہم چرم قربانی کے ساتھ ساتھ کچھ نقد رقومات بھی ان اسلامی قلعوں کی حفاظت کے لیے عنایت فرمائیں، اور اگر قربانی نہیں کرتے ہیں تب بھی بقدر استطاعت کچھ نہ کچھ نقد رقومات مدارس میں بطور عطیہ ارسال فرمائیں، تاکہ ہماری نسلوں کے دین و ایمان کی حفاظت کا سامان ہوسکے، اور آخرت کا اجرِعظیم تو ان شاءاللہ مل کر رہے گا۔

اللہ تعالٰی ہم کو سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے، باطل کی سازشوں کو نیست و نابود فرمائے۔ اور مدارسِ اسلامیہ کی ترقی کے فیصلے فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں