بدھ، 17 اکتوبر، 2018

پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

*پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا*
  
       *کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا*

✍ محمدعامرعثمانی ملی

قارئین کرام ! شہر عزیز مالیگاؤں نہ صرف مسجد و میناروں اور علماء و مدارس کا شہر کہلاتا ہے، بلکہ ہمارا یہ شہر اپنی ایک اور مذہبی  شناخت عفت مآب خواتینِ اسلام کے اسلامی پردہ کی وجہ سے بھی مشہور و معروف ہے۔
لیکن وقفے وقفے سے شریعت کی دھجیاں اڑا دینے والے بعض واقعات شہرِعزیز کی نیک نامی اور اس کی مذہبی پہچان پر سوالیہ نشان لگارہے ہیں۔

پیشِ نظرتحریر کے وجود میں آنے کا مقصد گذشتہ کل واقع ہونے والا ایک شرمناک اور حیا سوز واقعہ ہے جس نے شہر کے سنجیدہ اور دین دار طبقہ کو سخت بے چین کردیا ہے۔

واقعہ کچھ اس طرح ہے جسے سوشل میڈیا پر گردش کررہی ایک تحریر کے اشتراک سے پیش کیا جارہا ہے، جس کے صحیح ہونے میں کوئی تردد نہیں ہے۔
قلب شہر کی ایک مسلم بیوٹی ٹریننگ کلاس جہاں لڑکیوں کو سنگھار کرنے کا ہنر سکھایا جاتا ہے، اس کلاس کی جانب سے بروز اتوار ۱۲ اگست کو کسی ہال میں ایک پروگرام رکھا گیا جس میں شہر اور بیرون شہر سے لڑکیوں کو ماڈل کے شکل میں پیش کیا گیا۔ جس  میں لڑکیاں مختلف انداز میں کیٹ واک کرتی ہوئی دکھائی دیں۔ شہر کی لڑکیوں کو تو دلہن کی شکل میں پیش کیا گیا۔ لیکن بیرون شہر سے آئی ہوئی لڑکیوں کو مغربی تہذیب کے کپڑوں دکھایا گیا، یہ پروگرام فقط لڑکیوں کے لئے تھا لیکن باوجود اس  کے بہت سارے ماڈلنگ کرنے والے لڑکے بھی دکھائی دئیے، جس میں غالباً پانچ سوعورتوں اور لڑکیوں نے شرکت کی، اس پروگرام کی شوٹنگ بھی کی گئی جسے سوشل میڈیا پر بھی وائرل کیا گیا ہے۔

جیسے ہی بندے نے یہ خبر پڑھی دکھ کے ساتھ بے ساختہ مرحوم اکبر الہ آبادی کا یہ شعر

بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا

ذہن میں آگیا جس کے دوسرے حصے کو اس تحریر کا عنوان بناکر چند سطریں لکھنے لگا، تاکہ اس واقعہ کی سنگینی اور قباحت کو مزید واضح کردیا جائے۔

بلاشبہ یہ افسوسناک واقعہ مردوں کی عقل پر پڑے ہوئے بے غیرتی کے پردہ کی وجہ سے وجود میں آیا ہے، جس میں اس پروگرام کا انعقاد کرنے والے مرد اور جن گھروں کی خواتین نے اس میں شرکت کی ہے ان کے مرد ذمہ دار، سب برابر کے شریک ہیں، ایسے بے غیرت مردوں کے متعلق احادیث میں سخت وعید وارد ہوئی ہے۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا " تین طرح کے آدمیوں پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کر دیا ہے، ایک تو وہ شخص جو ہمیشہ شراب پئے ، دوسرا وہ شخص جو اپنے والدین کی نافرمانی کرے، اور تیسرا وہ  دیوث کہ جو اپنے اہل وعیال میں ناپاکی پیدا کرے۔(احمد، نسائی)

طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ " دیوث " اس بے غیرت شخص کو کہتے ہیں جو اپنے اہل یعنی اپنی عورت کو کسی برائی میں مبتلا دیکھے لیکن نہ تو اس کو اس کی وجہ سے کوئی غیرت محسوس ہو اور نہ اس کو اس برائی سے منع کرے (یعنی اپنی عورت کے پاس غیر مردوں کا آنا گوارا کرے ۔

مجمع البحرین میں لکھا ہے کہ " دیوث " کو کشخان " اور " قرنان" بھی کہتے ہیں لیکن بعض حضرات نے دیوث ، کشخان وہ ہے جو اپنی بہنوں کے پاس غیر مردوں کو آنے دے اور قرنان وہ ہے جو اپنی بیٹیوں کے پاس غیر مردوں کو آنے دے۔

محترم قارئین ! شریعت مطھرہ نے عورتوں کو اپنے شوہروں کے لئے جائز حدود میں تحسین وتزئین کرنے کو جائز، بلکہ مستحسن عمل کہا ہے، اور اس میں کسی دوسری خاتون سے مدد لینے کی بھی گنجائش ہے، لیکن بیوٹی پارلر کورس اور اس کے ذریعے چلایا جانے والا کاروبار، موجودہ وقت میں بہت سے مفاسد اور بے حیائی اور فحاشی کا ذریعہ بن رہا ہے، لہٰذا اس کورس کا کرنا، کرانا ناجائز اور حرام ہے، جس کے مفاسد پر ان شاءاللہ جلد ہی ایک مضمون ترتیب دیا جائے گا، لہٰذا جو خواتین اس طرح کے کورس کررہی یا سکھا رہی ہیں وہ فوراً اس کو ترک کردیں۔

مذکورہ کلاس کی جانب سے صرف سنگھار کورس سیکھنے سکھانے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ شریعت کے احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک حیا سوز پروگرام کا انعقاد کرکے اس میں خواتینِ اسلام کو بے پردہ پیش کیا گیا اور دیگرقوموں کی لڑکیوں کے بے حیائی وفحاشی کے چند نمونے بھی دکھائے گئے اس کا کیا مطلب لیا جائے؟

کیا خواتینِ اسلام کو یہ دکھاکر انھیں مغربی تہذیب کی عریانیت کی طرف طرف راغب نہیں کیا جارہا ہے؟

کیا چاہتے ہیں اس طرح کا پروگرام منعقد کرنے والے افراد؟

کیا دین و شریعت کا لحاظ ان کے دلوں سے بالکل ختم ہوگیا؟

کیا حیا و پردہ کا شعور اب ان میں باقی نہیں رہا؟

ایک طرف باران رحمت کے نزول کے لئے اللہ کی بندیاں آیتِ کریمہ کا ورد کررہی ہیں، روزے اور دعاؤں کا اہتمام کررہی ہیں، اور دوسری طرف کچھ خواتین اس طرح بے حیائی کا مظاہرہ کررہی ہیں، اور کچھ سینما گھروں میں فلمیں دیکھنے کے لیے پہنچ رہی ہیں۔

اللہ کی رحمت کیسے متوجہ ہوگی؟

کیسے حالات سدھریں گے؟

معزز قارئین ! مذکورہ پروگرام کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اگر اس پر فوری روک نہ لگائی گئی تو عنقریب اس کے انتہائی سنگین نتائج رونما ہوسکتے ہیں، اور اللہ نہ کرے ہمیں ایسی خبر بھی سننے کو ملے کہ مالیگاؤں کی کوئی لڑکی نے فلموں میں کام کرنے لگی، کیونکہ اس طرح کےپروگرام فلموں میں کام کرنے کے لیے پہلے زینہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

لہٰذا اس پروگرام کا انعقاد کرنے والے، اس میں کسی بھی طرح تعاون کرنے اور اس میں شرکت کرنے والے تمام لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس فعل پر ندامت و شرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کریں، اور آئندہ ایسی بے حیائی کی چیزوں سے بالکل دور رہیں۔

اسی کے ساتھ اکابر علماء کرام و عمائدین شہر سے بھی عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی ایسا مؤثر قدم اٹھائیں، تاکہ اس طرح کے پروگرام پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگ جائے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو عفت و پاکدامنی کے ساتھ زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں