*علماء کرام سے اپنا رشتہ استوار کریں*
*اور اپنے ایمان کی حفاظت کریں*
✍ محمد عامر عثمانی ملی
قارئین کرام ! موجودہ دور انتہائی سخت فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے، بڑے بڑے فتنے رونما ہورہے ہیں، جن میں سرفہرست قادیانیت، شکیلیت اور انکارِ حدیث کا فتنہ ہے جو دبے پاؤں شہرِعزیز میں اپنا قدم جما رہا ہے ۔ معلوم ہونا چاہیے کہ ان فتنوں کے پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ عوام الناس کی علماء کرام سے دوری ہے، ان فتنوں کے سدِباب کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ عوام علماء سے اپنا رابطہ مضبوط کریں، اگر کہیں کوئی غیر عالم آپ کو دین کی ایسی باتیں بتا رہا ہے جو دین و ایمان (جیسا کہ عام طور پر تبلیغی احباب بتاتے ہیں) سے ہٹ کر ہو یا علامات قیامت پر بات کرے خصوصاً مہدویت پر بات کرے، یا آپ کو ان کی باتوں میں ذرا بھی تردد اور کھٹک محسوس ہو تو آپ فوراً علماء کی طرف رجوع فرمائیں، اور جو شخص مطلقاً تمام علماء کرام کو برا بھلا کہے اس سے بھی دور رہیں، علماء کرام کو ایسے لوگوں کی نشاندہی کریں، کیونکہ ان فتینوں کا سب سے پہلا حربہ یہی ہوتا ہے کہ یہ سادہ لوح عوام کو علماء سے بدظن کرتے ہیں، جب یہ علماء سے بدظن ہوجاتے ہیں تو یہ اپنے عقائد کی دعوت دینا شروع کردیتے ہیں، اور عوام چونکہ علماء سے پہلے ہی بدظن و بدگمان ہوچکے ہوتے ہیں اس وجہ سے ان کے پاس ان مسائل کی تشفی کے لئے جاتے ہی نہیں ہیں، اورنتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے بدبختوں کے ہاتھوں اپنا قیمتی ایمان لُٹا بیٹھتے ہیں ۔
حدیث شریف میں ایسے ہی ادوار کے متعلق پیشین گوئی فرمائی گئی ہے :
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان فتنوں کے ظاہر ہونے سے پہلے جلد جلد نیک اعمال کرلو جو اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے صبح آدمی ایمان والا ہوگا اور شام کو کافر یا شام کو ایمان والا ہوگا اور صبح کافر اور دنیوی نفع کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالے گا ۔ (صحیح مسلم)
آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے عقائد ونظریات اقوال واحوال اور طور طریقوں میں ساعت بساعت تبدیلی ہوتی رہے گی، کبھی کسی نظریہ وعقیدہ کے حامل ہوں گے، کبھی کسی کے ایک وقت میں کوئی عہد و پیمان کریں گے اور دوسرے وقت میں اس سے منحرف ہو جائیں گے، کبھی دیانت و امانت پر چلنے لگیں گے اور کبھی بد دیانتی وخیانت پر اتر آئیں گے کبھی سنت پر عمل کرتے نظر آئیں گے اور کبھی بدعت کی راہ پر چلتے دکھائی دیں گے، کسی وقت ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال ہوں گے اور کسی وقت تشکیک و اوہام اور کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے لگیں گے، غرض یہ کہ ہر ساعت اور ہر لمحہ تبدیلی پیدا ہوتی نظر آئے گی اور اس امر کا یقین کرنا دشوار ہوگا کہ کسی شخص کی اصل کیفیت وحالت کیا ہے ۔ چنانچہ ایسی صورت میں لوگوں کو صحیح راستہ دکھانے کا کام علماء ربانیین کا ہوگا ۔ ایک دوسری حدیث شریف میں آتا ہے :
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا زمین میں علماء کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان میں ستارے کہ جن کے ذریعے بر و بحر کی تاریکیوں میں راستہ کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے، اگر ستارے بے نور ہوجائیں تو راستے پر چلنے والے بھٹک جائیں ۔ (مسند احمد)
مذکورہ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ فتنوں کی تاریکی میں یہی علماء ربانیین ستاروں کا کام کریں گے، اور لوگوں کی صحیح رہنمائی فرمائیں گے ۔ لہٰذا علماء کرام سے جڑے رہیں اور انھیں سے دین سیکھیں، انٹرنیٹ پر غیرعلماء کی دینی تقریریں اور تحریریں پڑھنے سے بالکل پرہیز کریں ۔ جس طرح ایک آدمی بیمار ہونے پر ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے انجینئر کے پاس نہیں جاتا، تو پھر دینی امراض میں کسی غیرعالم کی طرف کیوں رجوع کیا جاتا ہے؟ دین کو ایسا مسکین اور ہلکا آخر کیوں سمجھ لیا گیا ہے کہ ہر کوئی ایرا غیرا اس میں رائے زنی کررہا ہے؟ اس پر بھی غور کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کے ایمان و عقائد کی حفاظت فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
🌹🌹💐🌹🌹
جواب دیںحذف کریں