اتوار، 28 اکتوبر، 2018

دورانِ جماعت فجر کی سنت کا حکم

*دورانِ جماعت فجر کی سنت کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ایک آدمی اس وقت مسجد میں داخل ہوا کہ فجر کی جماعت شروع ہوچکی تھی، اور اس نے سنت ابھی ادا نہیں کی ہے تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟ فجر کی جماعت میں شامل ہوجائے یا سنت ادا کرے؟
براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں ۔
(المستفتی : مختار احمد، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورت مسئولہ میں فجر کی سنت میں مشغول ہونے کی وجہ سے اگر اس شخص کی فرض نماز چھوٹ جائے تو ایسا کرنا درست نہیں ہے، ایسے شخص کو چاہیے کہ فرض میں شامل ہوجائے اور فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے سنت نہ پڑھے، اس لئے کہ بخاری، مسلم اور ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔
احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :

عن عطاء بن یزید اللیثي أنہ سمع أبا سعید الخدري رضي اللہ عنہ یقول: قال رسول الله صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صلاۃ بعد صلاۃ العصر حتی تغرب الشمس ولا صلاۃ بعد صلاۃ الفجر حتی تطلع الشمس۔ (صحیح البخاري ۱؍۸۲، رقم: ۵۸۶، صحیح مسلم رقم: ۸۲۷)

عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: سمعت غیر واحد من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم منہم عمر بن الخطاب وکان من أحبہم إلی أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن الصلاۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس (صحیح البخاري ۱؍۸۲، رقم ۵۸۱، سنن الترمذي ۱؍۴۵، صحیح مسلم رقم: ۸۲۶)

اس بنا پر احناف کا موقف یہ ہے کہ فجر کی سنتیں اگر چھوٹ جائیں تو انہیں فرض کے بعد ادا نہ کیا جائے، بلکہ طلوعِ آفتاب کے بعد اشراق کے وقت پڑھنا چاہیے، جیسا کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ۔

لیکن اگر یہ یقین ہو کہ جماعت کے ساتھ ایک رکعت مل سکتی ہے تو سنت چھوڑنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ احادیث مبارکہ میں فجر کی دو رکعت سنت کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس کے ترک پر وعید سنائی گئی ہے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  فجر کی سنتوں سے زیادہ کسی نفل کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔ (بخاری، مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : فجر کی دو رکعت (سنت) نہ چھوڑو اگرچہ گھوڑوں سے تم کو روند دیا جائے۔ (ابوداؤد)

چنانچہ ایسے لوگوں کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ صحن میں یا کسی ستون کی آڑ میں سنت ادا کرلیں، جماعت کی صف میں سنت ادا نہ کریں، (اس لئے کہ جماعت کی صف میں سنت ادا کرنا سخت مکروہ ہے،)
جیسا کہ بعض جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کا معمول مبارک تھا، جن میں حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنھما کا عمل یہاں ذکر کیا جاتا ہے جو کہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ یہ حضرات اگر نمازِ فجر باجماعت شروع ہوجاتی اور انہوں نے ابھی سنتیں ادا نہ کی ہوتیں تو وہ پہلے مسجد کے کسی گوشے میں سنتیں ادا کرتے، پھر باجماعت نماز میں شریک ہوجاتے ۔

عنِ ابنِ مَسعودٍ أنَّهُ كانَ يدخلُ المسجدَ والنَّاسُ صُفوفٌ في صلاةِ الفجرِ ، فيصلِّي رَّكعتينِ في ناحيةِ المسجِدِ ، ثمَّ يدخلُ معَ القَومِ] .

الراوي: أبو عبيدة المحدث: العيني - المصدر: نخب الافكار - الصفحة أو الرقم: 6/77 
خلاصة حكم المحدث: طريقه صحيح

عن أبي الدَّرداءِ رضي اللَّه عنه: أنَّهُ كانَ يدخُلُ المسجدَ والنَّاسُصفوفٌ في صلاةِ الفجرِ ، فيصلِّي رَّكعتينِ في ناحيةِ المسجدِ ، ثمَّ يدخلُ معَ القَومِ .

الراوي: أبي عبيد الله المحدث: العيني - المصدر: نخب الافكار - الصفحة أو الرقم: 6/77 
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

اور رہی بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت کی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب نماز شروع ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں پڑھی جائے گی ۔
(ترمذی ۔ جلد ۲ صفحہ ۲۸۲)

یقیناً یہ حدیث صحیح ہے، لیکن دیگر احادیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کو سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جائے گا کہ اس فرمان نبوی کا تعلق فجر کی نماز کے علاوہ دیگر نمازوں سے ہے، کیونکہ شریعت میں فجر کی دو رکعت سنتوں کی جو اہمیت ہے وہ دیگر سنتوں کی نہیں ہے ۔

اور جہاں تک سنت کو فرض پر فوقیت دینے کی بات ہے تو یہ غیرمقلدین کی سوچ ہے، اس لئے کہ جماعت کے مکمل چھوٹنے کے اندیشہ پر سنت میں مشغول ہونے کا فتوی نہیں دیا جاتا، بلکہ ایک رکعت کے ملنے کی امید پر یہ کہا جاتا ہے کہ پہلے سنت ادا کرلی جائے اس کے بعد فرض میں شامل ہوا جائے، اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ سنت کو فرض پر فوقیت دینے والا اعتراض قطعاً درست نہیں ہے، اور اوپر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا معمول مبارک بھی ذکر کردیا گیا ہے، جن میں عبداللہ ابن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی بھی ہیں جن سے خلفائے راشدین مسائل پوچھا کرتے تھے، ان تفصیلات کے بعد مزید کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہ جاتی ۔

البتہ اس کا معمول بنالینا بالکل غلط ہے، اس لئے کہ دیکھا گیا ہے کہ بعض حضرات آرام سے عین جماعت کے وقت آتے ہیں اور سنت میں مشغول ہوجاتے ہیں، لہٰذا لوگوں کو اس کا اہتمام کرنا چاہئے کہ اتنی پہلے مسجد آئیں کہ سنت ادا کرنے کے بعد بھی ان کی تکبیر اولی بھی فوت نہ ہو ۔

وإذا خاف الفوت رکعتي الفجر لاشتغالہ بسنتہا ترکہا لکون الجماعۃ أکمل وإلا بأن رجا إدراک رکعۃ فی ظاہر المذہب۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ، ۲/ ۱۲۹)

وقیل: التشہد واعتمدہ المصنف والشرنبلالی تبعا للبحر، لکن ضعفہ في النہر۔ (درمختار، کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ، ۲/ ۵۱۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 جمادی الاول 1439

4 تبصرے:

  1. عامر انجنیئر16 اپریل، 2021 کو 4:49 PM

    جَزاک اَللّٰہُ خیراً

    جواب دیںحذف کریں
  2. جزاک اللہ خیرا محترم المقام جناب مفتی صاحب

    جواب دیںحذف کریں
  3. انصاری محمود14 نومبر، 2022 کو 2:26 PM

    جزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا

    جواب دیںحذف کریں
  4. فجر کی نماز قضا ہوجائے تو ۔اب قضا پڑھنے میں سنت پہلے پڑھے گے یا فجر کی نماز پہلے پڑھے گے؟

    جواب دیںحذف کریں