سوال :
بھیک مانگنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ایسے لوگوں کو منع کیا جا سکتا ہے؟ اکثر ٹریفک سگنل وغیرہ پر بالخصوص مسلم نوجوان مستقل بھیک مانگتے ہیں بطور روزگار اور بے حد اصرار اور اللہ رسول کا واسطہ دیتے ہیں. ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیئے جبکہ دل میں بد گمانی بھی ہوتی ہے کہ یہ شخص اچھا بھلا ہے اور بھیک مانگ رہا ہے اور دوسری طرف ان کے واسطے وسیلوں کے احترام کا ڈر بھی لگتا ہے ۔
برقعہ پوش خواتین بھی چھوٹے چھوٹے بچے لے کر مساجد کے باہر اور سگنل پر *مستقل* بھیک مانگتی ہیں ۔
(المستفتی : محمد مصدق، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بلا ضرورت شدیدہ بھیک مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح تندرست پیشہ ور بھکاریوں کو جن کے متعلق علم ہو انھیں صدقہ خیرات نہیں دینا چاہیے۔ اس لئے کہ ان کو دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے اس قبیح پیشے کو استحکام بخشتے ہیں، کیونکہ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان کے تحت ایسا کرکے ہم انکے گناہ پر تعاون کا باعث بنتے ہیں۔
لا یحل أن یسأل شیئًا من لہ قوت یومہ بالفعل أو بالقوۃ کالصحیح المکتسب، ویأثم معطیہ إن علم بحالہ ، لإعانتہ علی المحرم ۔ (شامی : ۳/۴۲ ، باب الجمعۃ ، مطلب في الصدقۃ علی سُوّال المسجد)
بعض حضرات ہر سائل کو صدقہ خیرات دینے کے لیے اس حدیث شریف کا حوالہ دیتے ہیں :
حضرت حسین بن علی کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے سائل کے بارے میں فرمایا کہ وہ بہرصورت دئیے جانے کا مستحق ہے اگرچہ گھوڑے پر آئے ( احمد، ابوداؤد) اور مصابیح میں کہا گیا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے)
معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد گرامی کا اصل مقصد یہ تعلیم دینا ہے کہ سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ کرنا چاہئے اگرچہ وہ گھوڑے پر چڑھ کر بھی مانگنے آئے تو اس کا سوال پورا کیا جائے۔
قاضی فرماتے ہیں کہ سائل کو خالی ہاتھ نہ پھیرو اگرچہ ایسی حالت میں تمہارے پاس مانگنے آئے جو اس کے مستغنی ہونے پر دلالت کرے کیونکہ تمہیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر اسے سوال کرنے کی حاجت نہ ہوتی تو وہ اپنا دست سوال دراز کرکے تمہارے آگے اپنے آپ کو ذلیل وخوار کیوں کرتا؟ (مشکوۃ مترجم)
پس اس حدیث کی تشریح سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیشہ ور تندرست بھکاری اس حکم سے نکل گئے، کیونکہ ان کا مستقل مانگنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ لوگ بغیر ضرورتِ شدیدہ کے مانگتے ہیں۔
رہی بات ان کے واسطے وسیلوں کی تو اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، لہٰذا ان کے واسطوں وسیلوں کے باوجود انھیں اچھے انداز میں منع کردینے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔
وعن الحسين بن علي رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " للسائل حق وإن جاء على فرس " (رواه أحمد وأبو داود وفي المصابيح : مرسل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
20 رمضان المبارک 1439
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں