*خون اور دیگر انسانی اعضاء کے عطیہ کا حکم*
سوال :
مفتی صاحب کسی ضرورت مند کو خون، کڈنی،آنکھیں اور جسم کا کوئی عضو دینے کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ اسی طرح بلڈ بینک کا قیام کرنا کیسا ہے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : انسان کو اپنے بدن کے کسی بھی حصہ میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ امانت میں خیانت اور سخت گناہ کا کام ہے۔ اسی لئے عام حالات میں اپنے اعضاء کو اپنی زندگی میں یا مرنے کے بعد دوسرے کے لیے یا کسی ادارے کے لیے وصیت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
وصیت کی شرائط میں سے یہ ہے کہ وصیت کرنے والا اس چیز کا مالک ہو اور جس شئی کی وصیت کی جارہی ہے وہ شئی بھی قابل تملیک ہو۔ چونکہ انسانی اعضاء مال نہیں ہیں اور نہ انسان اپنے اعضاء کے مالک ہیں اس لئے اپنے اعضاء میں سے نہ کسی عضو کا ہبہ کرسکتا ہے اور نہ ہی عطیہ دینے کی وصیت کرسکتا ہے۔ (1)
البتہ بعض مرتبہ کچھ ایسی مجبوریاں ہیں جو اچانک پیدا ہوجاتی ہیں، اور خون کی ایک بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً ریل یا بس ایکسیڈنٹ کے موقع پر یا اور بھی دیگر بڑے حادثات میں بسا اوقات بیک وقت بہت زیادہ افراد زخمی ہوجاتے ہیں، اور ان کی جان بچانے کے لیے ان سب کو خون دینا ضروری ہوجاتا ہے، اور مقدار کی تعیین وتحدید معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کافی مقدار میں محفوظ رکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے، جسے آج کل اصطلاح میں "بلڈ بینک" کا نام دیا جاسکتا ہے ۔
اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آل انڈیا فقہ اکیڈمی نے اپنے چوبیسویں فقہی سیمینار میں درج ذیل تجاویز پاس کیں :
۱) خون انسانی جسم کا ایک اہم اور بنیادی جزء ہے جس سے حیات انسانی کی بقا مربوط ہے، اگر کسی انسان کو خون کی ضرورت پڑ جائے اور ماہر ڈاکٹر کی تجویز ہو کہ اس کے لیے خون ناگزیر ہے تو انسانی جان بچانے کے لیے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان یا غیر مسلم کو عطیہ کرنا جائز ہے، اسی طرح کسی مسلمان کے لیے اس سے لینا بھی جائز ہے۔
۲) ایسے بلڈ بینک جہاں لوگ رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ دیتے ہیں اور وہ بینک ضرورتمندوں کو مفت خون فراہم کرتے ہیں وہاں مسلمان کے لیے خون کا عطیہ کرنا جائز ہے۔
۳) رضاکارانہ بلڈ کیمپ لگانا اور بلڈ بینک قائم کرنا بھی انسانی ضرورت کے پیش نظر جائز ہے اور یہ انسانی خدمت میں شامل ہے۔ (2)
اسی طرح آل انڈیا فقہ اکیڈمی کے دوسرے فقہی سیمینار میں اس تجویز پر اتفاق کیا گیا کہ اگر کسی مریض کو اطباء کی تحقیق کے مطابق کسی دوسرے انسان کا کوئی عضو لگانے سے اس کی جان بچ سکتی ہو جس سے عضو دینے والے کا نقصان بھی نہ ہو جیسے کڈنی وغیرہ تو اس کی گنجائش ہے۔ تجویز ملاحظہ فرمائیں :
اگر کوئی تندرست شخص ماہر اطباء کی رائے کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر اس کے دو گُردوں میں سے ایک گُردہ نکال لیا جائے، تو بظاہر اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اور وہ اپنے رشتہ دار مریض کو اس حال میں دیکھتا ہے کہ اس کا خراب گُردہ اگر نہیں بدلا گیا، تو بظاہرِ حال اس کی موت یقینی ہے، اور اس کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے، تو ایسی حالت میں اس کے لئے جائز ہوگا کہ وہ بلاقیمت اپنا ایک گُردہ اُس مریض کو دے کر اس کی جان بچالے۔ (3)
تاہم آنکھوں کے متعلق یہ حکم نہیں ہے کیونکہ آنکھ نہ ہونے کی وجہ سے کسی کی جان پر بَن نہیں آتی، لہٰذا آنکھوں کا عطیہ زندگی میں یا مرنے کے بعد کی وصیت کرنا جائز نہیں ہے، ناجائز ہونے کی وجوہات اوپر بیان کردی گئی ہیں۔
1) وشرطھا کون المو صی اھلا للتملیک والموصی لہ اھلا للتملک والموصی بہ یعد الموصی مالاً قابلاً للتملیک …الخ ۔ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الوصایا، :۶؍۹۰)
واما الذی یر جع الی الموصی بہ فانواع منھا ان یکون مالاً اومتعلقًا بالمال لان الوصیۃ ایجاب الملک او ایجاب مایتعلق بالملک من البیع والھبۃ والصدقۃ والاعتاق ومحل الملک ھو المال فلا تصح الوصیۃ بالمیتۃ والدم من احد ولأحد لا نھما لیسا بمال فی حق احد ولا بجلد المیتۃ قبل الدباغ وکل مالیس بمال… الخ ومنھا ان یکون المال متقوماً فلا تصح الوصیۃ بمال غیرمتقوم کالخمر الخ ۔ (بدائع الصنائع، کتاب الوصیۃ:۶؍۴۵۷)
2) آل انڈیا فقہ اکیڈمی چوبیسواں فقہی سیمینار، مؤرخہ: ۱-۳؍ مارچ ۲۰۱۵ء مطابق ۹-۱۱، جمادی الاولیٰ ۱۴۳۶ھ
مقام : دار العلوم الاسلامیہ، او چیرہ کیرالا
3) آل انڈیا فقہ اکیڈمی دوسرا فقہی سیمینار، مؤرخہ: ٢-٣؍ اپریل ١٩٨٩ء منعقدہ، دہلی/بحوالہ نظام الفتاوی) فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
18 محرم الحرام 1440
Jazakallah khair Mufti sahab bahut hi umda
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ احسن الجزاء فی الدارین
حذف کریںعبدالشکور پربھنی مہاراشٹر
ماشاء اللہ بہترین جواب
جواب دیںحذف کریں