اتوار، 28 اکتوبر، 2018

بغیر سحری کے روزہ رکھنے کا حکم

*بغیر سحری کے روزہ رکھنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب عید بعد جو چھ روزے رکھتے ہیں ان روزے کی سحری اگر رات میں کرکے سوئے تو کیسا ہے؟ کیا ان روزوں کے لئے تہجد میں اٹھنا ضروری ہے؟ یا بغیر سحری کے روزہ رکھ سکتے ہیں؟
(المستفتی : رضوان احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نفل اور فرض ہر طرح کے روزوں کے لیے سحری کرنا اور رات سے نیت کرنا مسنون و مستحب ہے، ضروری نہیں۔ لہٰذا  صورتِ مسئولہ رات کو ہی نیت کرکے سوجائیں تو روزہ درست ہوگا، سحری نہ کرنے کی وجہ سے روزہ پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ البتہ ایک مسنون و مستحب اور فضیلت والے عمل سے محرومی ہوگی۔ اور اگر نیت کرکے نہیں سویا ہے تو نصفِ نہار شرعی سے پہلے نیت کرلی جائے تو روزہ درست ہوجائے گا۔

نصف نہار شرعی، صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک کے کل وقت کا نصف حصہ ہے۔ مثلاً صبح صادق صبح پانچ بجے ہے اور غروب آفتاب شام سات بجے ہے تو یہ کُل چودہ گھنٹے ہوئے جس کا نصف سات گھنٹہ ہوگا۔ یعنی دوپہر بارہ بجے تک روزے کی نیت معتبر ہوگی۔ اس کے بعد نیت کی تو روزہ درست نہیں ہوگا۔

ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : فیصح أداء صوم رمضان والنذر المعین والنفل من اللیل ۔۔ إلی الضحوۃ الکبری لا بعدہا ولا عندہا اعتبارا لأکثر الیوم ۔ التنویر وشرحہ ۔ وفي الشامیۃ : قولہ : (إلی الضحوۃ الکبری) المراد بہا نصف النہار الشرعي ، والنہار الشرعي من استطارۃ الضوء في أفق المشرق إلی غروب الشمس والغایۃ غیر داخلۃ في المغیّا کما أشار إلیہ المصنف بقولہ : ’’ لا عندہا ‘‘ ۔۔۔ قال في ’’ الہدایۃ ‘‘ : وفي الجامع الصغیر : قبل نصف النہار وہو الأصح ، لأنہ لا بد من وجود النیۃ في أکثر النہار ، ونصفہ من وقت طلوع الفجر إلی وقت الضحوۃ الکبری لا وقت الزوال ، فتشترط النیۃ قبلہا لتتحقق في الأکثر ۔ (الفتاوی الہندیۃ : ۱/۱۹۵ ، ۱۹۶ ، کتاب الصوم ، الباب الأول في تعریفہ وتقسیمہ وسببہ ووقتہ وشرطہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
6 شوال المکرم 1439

7 تبصرے: