*عالم دین کا اپنی طرف سے تفسیر بیان کرنے اور غیرعالم کا وعظ میں قرآن کی آیات پڑھ کر ترجمہ کرنے کا حکم*
سوال :
محترم و مکرم مفتی صاحب!
ایک اہم مسئلہ دریافت کرنا ہے۔
اگر کوئی عالم قرآن مجید کی کسی آیت کی تفسیر میں ایسی بات کہے جو اکابر مفسرین کی کتاب میں نہ ہو، لیکن اس کی یہ بات قرآن و حدیث کے حکم سے متعارض نہ ہو تو کیا وہ ایسی بات کہ سکتا ہے؟ اس کی یہ بات تفسیر بالرائے میں تو شامل نہیں ہو گی؟ نیز کوئی عام آدمی وعظ میں قرآن کی آیت پڑھ کر ترجمہ کرے۔ ایسے آدمی کا یہ فعل درست ہے؟ وضاحت فرما کر ممنون فرمائیں۔
(المستفتی : افضال احمد ملی، امام وخطيب جامع مسجد پمپر کھیڑ، چالیسگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی عالمِ دین کا قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر میں ایسی بات کہنا جو معتبر تفاسیرمیں نہ ہو، لیکن اس کی یہ بات قرآن و حدیث کے حکم سے متعارض نہ ہو تو اسے تفسیر بالرائے تو نہیں کہا جائے گا، (احادیثِ مبارکہ، اور صحابہ کرام وسلفِ صالحین کے اقوال وآثار کو بالائے طاق رکھ کر اپنی سمجھ اور عقل سے قرآنِ پاک کے مطلب اور مراد کو بیان کرنا، تفسیر بالرائے کہلاتا ہے،) لیکن ایسا کہنا بھی درست نہیں ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے :
حضرت جندب ؓ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ جس نے قرآن مجید میں اپنی رائے سے کچھ کہا اور وہ حقیقت و واقع کے مطابق بھی ہو تو اس نے تب بھی غلطی کی۔ (جامع ترمذی و سنن ابوداؤد)
یعنی کسی آدمی نے قرآن کی کسی آیت کی ایسی تفسیر بیان کی جو نہ تو احادیث سے ثابت تھی اور نہ علمائے امت سے منقول بلکہ محض اپنی عقل و رائے پر بھروسہ کر کے آیت کی تفسیر بیان کردی مگر اتفاق سے اس کی بیان کردہ تفسیر صحیح اور حقیقت و واقعہ کے بالکل مطابق ہوئی کہ اس سے آیت کے معنی و مطالب میں کوئی غلطی نہیں ہوئی تو اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ بھی اس نے غلطی کی، کیونکہ تفسیر گو صحیح ہوئی مگر چونکہ اس نے قصدًا اپنی عقل اور رائے کو قرآن کی تفسیر میں دخل دیا اور تفسیر کا جو شرعی قاعدہ و طریقہ ہے اس سے انحراف کیا اس لئے وہ بھی خطا کار کے حکم میں شامل کیا جائے گا۔
"تفسیر" اسے کہتے ہیں کہ آیت کے جو معنی و مطالب بیان کئے جائیں اس کے بارے میں یہ یقین ہو کہ آیت کی مراد اور اس کا حقیقی مطلب یہی ہے اور یہ بات سوائے اہل تفسیر کی نقل کے جس کی سند رسول اللہ ﷺ تک پہنچی ہو درست نہیں ہے، یعنی ایسا یقین اور اطمینان اسی تفسیر پر صحیح ہوگا جو اجلہ علماء اور مستند مفسرین سے منقول ہو کیونکہ انہوں نے وہی معنی و مطالب بیان کئے ہیں جو براہ راست سرکار دو عالم ﷺ سے منقول ہیں اور جو واسطہ بالواسطہ ان تک پہنچے ہیں۔ (مشکوٰۃ مترجم)
2) قرآن کریم کا ترجمہ وعظ و نصیحت میں وہ شخص بیان کرے، جس نے باقاعدہ طریقہ پر استاذ سے تعلیم حاصل کی ہو، محض اپنے ذاتی مطالعہ سے قرآن کریم کا ترجمہ بیان کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس طریقہ سے بہت سی غلطیوں میں خود مبتلا ہونے اور دوسروں کو بھی مبتلا کردینے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ (مستفاد : فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل، ۳؍۴۷۴)
عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ۔ (سنن الترمذي، رقم : ۲۹۵۲)
قال السیوطي : اخْتَلَفَ النّاسُ فِي تَفْسِيرِ القُرْآنِ هَلْ يَجُوزُ لِكُلِّ أحَدٍ الخَوْضُ فِيهِ؟ فَقالَ قَوْمٌ: لا يَجُوزُ لِأحَدٍ أنْ يَتَعاطى تَفْسِيرَ شَيْءٍ مِنَ القُرْآنِ وإنْ كانَ عالِمًا أدِيبًا متسما فِي مَعْرِفَةِ الأدِلَّةِ والفِقْهِ والنَّحْوِ والأخْبارِ والآثارِ ولَيْسَ لَهُ إلّا أنْ يَنْتَهِيَ إلى ما رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي ذَلِكَ۔ (الإتقان في علوم القرآن : ٤/٢١٣)
(مَن قالَ) أيْ: مَن تَكَلَّمَ (فِي القُرْآنِ) أيْ: فِي مَعْناهُ أوْ قِراءَتِهِ (بِرَأْيِهِ) أيْ: مِن تِلْقاءِ نَفْسِهِ مِن غَيْرِ تَتَبُّعِ أقْوالِ الأئِمَّةِ مِن أهْلِ اللُّغَةِ والعَرَبِيَّةِ المُطابِقَةِ لِلْقَواعِدِ الشَّرْعِيَّةِ، بَلْ بِحَسَبِ ما يَقْتَضِيهِ عَقْلُهُ، وهُوَ مِمّا يَتَوَقَّفُ عَلى النَّقْلِ بِأنَّهُ لا مَجالَ لِلْعَقْلِ فِيهِ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۱/٣٠٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
24 محرم الحرام 1440
کسی مثال سے واضح کردیں۔۔۔
جواب دیںحذف کریںMashaAllah
جواب دیںحذف کریں